Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال میں اعلیٰ تعلیم اور ٹرافیوں کو سراہنے والا کوئی نہ تھا

 کم سنی میں دی گئی تر بیت کے نقوش سوچوں سے مٹائے نہیں مٹ سکتے 
تسنیم امجد۔ریاض
وہ آ نکھیں بند کئے بستر پر صبح سے لیٹی تھی ۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ با لکل بے حس ہو چکی ہے ۔وقار صبح ہی صبح بغیر نا شتہ کئے بڑ بڑاتے چلے گئے تھے ۔وہ سو چنے لگی کہ گھر داری سے میری عدم واقفیت کا باعث میرے والدین ہیں ۔شو ہر کی خواہش تھی کہ وہ اس کے کام خود کرے،گھر میں دلچسپی لے لیکن اسے تو یہ سب آ تا ہی نہیں تھا ۔اس کے بابا حکو مت کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔گھر میں نو کر چا کر اور ہر شے کی فرا وا نی تھی ۔دادی اکثر کہتیں کہ بیٹیو ں سے کام لیا کرو لیکن ماما کہتیں ،خود ہی آ جائے گا ۔دیکھنا میں ان کی شادیا ں وہیں کروں گی جو ان سے کو ئی کام نہیں لیں گے ۔
وقار بھی بزنس مین تھا ،اس کے بنگلے میں بھی کسی شے کی کمی نہیں تھی ۔اس کے والدین امریکہ میں تھے ۔یہ خود بھی وہیں کا پڑھا ہوا تھا۔والدین نے یہ سب دیکھ بھال کر اس کا ہاتھ اسے تھمایا تھا لیکن انہیں یہ خبر نہ تھی کہ وہ مشر قی روایات کا دلدادہ ہے اسی لئے امریکہ چھوڑ کر وطن آ نے کو تر جیح دی تھی ۔
اسے ما ضی کا ایک ایک دن یاد آ رہا تھا جب اس کی وجہ سے دادی اورماما میں ان بن رہتی تھی ۔اسے یاد آ یا کہ اس دن بھی ٹھیک ٹھاک جھڑپ ہو ئی تھی جب وہ بضدتھی کہ کچھ بھی ہوجائے ، اسے اپنی سہیلیو ں کے ساتھ ایک ہفتہ کے لئے کراچی جانا ہے ۔یہ یو نیورسٹی کا ٹرپ تھا جس میں ایک گروپ لڑ کو ں کا بھی تھا ۔دادی اسی بات سے پریشان تھیںجبکہ اس کے ماما ،بابا کو اس کی کو ئی پروا نہ تھی ۔بابا نے اپنی ماں کو بھی سختی سے کہہ دیا کہ ہمارے معاملات میںمدا خلت نہ کریں ۔اسی طرح من مانیاں کرتے وقت گزرتا گیا۔اس نے اپنی شادی پر دادی کے منع کرنے کے با و جود سہیلیو ں کے کہنے پر بے تکی رسمیں کر وا ئیں ۔دادی کے الفاظ کی باز گشت آج بھی اس کے کا نوں میںگو نج رہی تھی کہ بیٹی سہیلیو ں کا کیا ہے ،انہیں تو روز کا ہلا گلا چا ہئے۔عقل کرو، یوں پا نی کی طرح پیسہ بہانا منا سب نہیں ۔اللہ تعالیٰ بھی فضول خرچی کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتالیکن دادی کی کون سنے جب والدین بھی ساتھ دے رہے ہو ں ۔
بچپن تو گزرا ہی نو کروں کے سر پر ۔ماما کو گھو منے پھرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی ۔بابا اکثر دورے پر رہتے تھے ۔کیا یاد کرتی اور کیا بھو لتی۔اپنا ما حول اور اپنی روایات اس کے سامنے کچرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں ۔ہم اکثر بڑ بڑاتے کہ دادی کو کہیں بھیج کیوں نہیں دیتے ۔انہیں خبر ہی نہیں کہ زمانہ کہا ں پہنچ گیا ہے ۔ہم گستاخ لہجے میں ان سے بات کرتے تو ان کی آنکھو ں میں آ نسو آ جاتے لیکن ہمیں کہا ں پروا ہوتی تھی ۔
آج اسے رہ رہ کر دادی یاد آ رہی تھیں۔وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں ان کی بات مان لیتی ۔کاش والدین نے مجھے اپنی اقدار کا شعور دیا ہو تا ۔والدین نے کبھی نہیں سو چا کہ ان کی اصل ذمہ دار یا ں کیا ہیں لیکن اب کیا کروں ؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔اسی طرح اسے نیند آ گئی۔خواب میں اس نے دادی کو مسکراتے اور تسلی دیتے دیکھا۔اس کی آ نکھ کھلی تو ایک عزم کے ساتھ اس نے دادی کو فون ملایا اور لجاجت سے انہیں اپنے ہا ں آنے کی دعوت دی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کم سنی میں بچو ں کودی جانے والی تر بیت کے نقوش ان کی سوچوں سے مٹائے نہیں مٹ سکتے ۔روایات کسی بھی خاندان کا سر ما یہ ہو تی ہیں ۔ان کی بقا اور حفا ظت کے لئے والدین کو ہر ممکن کو شا ں رہنا چا ہئے ۔اپنی اقدار کا شعور در ا صل شعو رِ ذات ہے ۔ان سے منہ مو ڑنے کا مطلب خود اپنی اہمیت سے منہ مو ڑنا ہے ۔والدین مثالی کردار ادا کریں تو ممکن نہیں کہ وہ اپنی ثقافت سے منہ مو ڑلیں ۔جس گھر میں بزرگ مو جود ہو ں وہا ں والدین کی ذمہ دار یا ں بٹ جاتی ہیں۔بچو ں کی تر بیت کی ذمہ داری انہیں ہی سونپ دینی چا ہئے ۔بزر گوں کے ساتھ جھگڑے سے بچوں پر برا ا ثر پڑتا ہے ۔ما ں کی گودبچے کی پہلی تر بیت گاہ ہوتی ہے ۔اگر وہ ملازمت کرتی ہے یا سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی عادی ہے تو ایسے میں گھر کے بز رگ ان کے لئے ایک نعمت ہیں ۔بچیو ں کوگر ہستی کی تر بیت کا آ غازابتدائی دورسے ہی کر دینا چا ہئے ۔کھیل ہی کھیل میں انہیں چھو ٹے چھو ٹے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ فیس بک پر کچھ قریبی رشتہ داربچو ں کے ایسے خیا لات پڑ ھنے کو ملے جو قا بلِ افسوس تھے ۔انہوں نے اپنی روایات کو برا بھلا کہہ رکھا تھا اور مغرب کی رسوم و اطوار کو خوب سرا ہا گیا تھا ۔ایک بچے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کاش ہم ان کے ہاں ہی پیدا ہوجا تے ۔ والدین کا روکنا ٹوکنا ہمیں ذرا اچھا نہیں لگتا ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ فیس بک پر ایسے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں لڑ کیا ں شامل تھیں ۔ما ہرین کا کہنا ہے کہ والدین کی عدم تو جہ کا شکار بچے ہی اپنی سو سا ئٹی سے فرار چا ہتے ہیں ۔یہ ا حساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا طا قتور بننے کے جنون میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔بچو ں میں تقلید کا عنصر زیادہ ہو تا ہے ۔انہیں شتر بے مہاربنا کر چھو ڑنا مناسب نہیں ۔بچپن سے بلوغت تک کا سفر خا صا طویل ہے ۔اس میں کئی منز لیں ایسی آ تی ہیں کہ جہاں بچو ں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چا ہتے ہیں ۔اگر توجہ نہ ہو تو وہ بھٹک جاتے ہیں۔رنگینی انہیں بھاتی ہے جس کی جانب وہ کھنچتے چلے جاتے ہیں ۔
بچیو ں کی تر بیت آ سان نہیں ۔اس میں محنت اور صبر و تحمل درکارہوتا ہے ۔ان کی سہیلیوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔آجکل ”ڈے اسپنڈ “ کرنے کارجحان جدیدطرزِ حیات کا حصہ بن چکا ہے ۔اکثر خرابی یہیں سے پیدا ہو تی ہے ۔ٹیکنا لوجی کی ترقی کا سب سے بڑا نقصان والدین کو ہوا ہے کیو نکہ اولاد کے دائرے وسیع ہو چکے ہیں۔ان کے رابطے کس کس سے ہیں، اس کی خبررکھنا ممکن نہیں رہا۔اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ان کے دوست اوران کی سہیلی بن جا ئیے۔یہ بھی جان لیجئے کہ ڈانٹ ڈپٹ سے دوریا ں بڑ ھتی ہیں۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ میں نے بچیو ں سے کو ئی کام نہیں لیا۔اس لئے کہ میری ما ں نے مجھ سے بہت کام لئے ۔چھو ٹی سی عمر میں ہی انہوں نے مجھے ہر کام میں ماہر کر دیاتھا ۔میں 12 برس کی عمر میں ہی ایک بڑی دعوت کا کھانا پکا سکتی تھی۔اکثر ایسا لگتا تھا کہ میں نے بچپن دیکھا ہی نہیں ۔سسرال میں خوب آ ﺅ بھگت رہی ۔سبھی اماں کی تر بیت کو سراہتے۔یہی وجہ تھی کہ میں اپنی بیٹیو ں کو میکے میں خوب سکھ دینا چا ہتی تھی ۔میری بڑی بیٹی پھو پی نے لے لیا ۔میںخوش تھی کہ بڑے گھر میں بیٹی گئی ہے لیکن اپنی کو تا ہیو ں کا احساس اس وقت ہواجب ان کے ہاں جانے پر اس کی ساس یعنی میری نند نے شکوہ کیا کہ تم نے اس کو کچھ بھی نہیں سکھا یا ۔وہ اپنے کپڑے وارڈ روب میں بھی سلیقے سے نہیں رکھ سکتی ۔اس طرح کی مزید شکایات سننے کو ملیں تو مجھے احساس ہوا کہ میری لا پروائی سے اس کو یہ سب سننے کو مل رہا ہے ۔سسرال میں اعلیٰ تعلیم اور جیتی ہوئی ٹرافیو ں کو سراہنے اور ان کا ذکر کرنے والا کو ئی نہیں تھا ۔
 

شیئر: