عاید الشمری۔الریاض
دنیا بھر کے ممالک اہم اور موثر ممالک میں اپنے ہمدردوں، مدد گاروں اور پریشر گروپ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مد میں اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔عطیات پیش کرتے ہیں۔یونیورسٹیوں، اسکولوں ، کالجوں اور انجمنوں کے قیام پر خطیر دولت صرف کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تعلقات عامہ والی کمپنیوں سے معاہدے کرکے اپنی شبیہ بہتر بنانے اور اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے تخلیاتی رقم خرچ کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں مدینہ منورہ میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی جامعہ ہے۔دنیا بھر کے مسلمان اس سے منسلک ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔1437ھ کے اختتام تک اس کے فضلا ء کی تعداد 74ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ انکا تعلق 170سے زیادہ ملکوں سے ہے۔یہاں سے وہ بی اے ، ایم اے، پی ایچ ڈی او رڈپلومہ کورس کرکے اپنے اپنے وطن واپس ہوئے ہیں۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ53 برس سے اعتدال ،میانہ روی اور مکالمے کی ثقافت کا پیغام پھیلا رہی ہے۔ اسکے فضلاء صحیح شرعی علوم سے آراستہ ہوتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ کے فضلاء اپنے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اپنے سماج پر اثر انداز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جامعہ اسلامیہ کے فضلاء سے فائدہ اٹھانے اور ان سے ربط و ضبط کی کوئی حکمت عملی کبھی بنائی گئی؟کیا بعض اہم ممالک میں مستقبل کی لیڈر شپ کی تیاری کا کوئی ادارہ تشکیل دیا گیا ہے؟ مثال کے طور پر میری ملاقات ایک عرب نژاد کینیڈین صحافی سے ہوئی۔ اس نے مجھ بتایا کہ کینیڈا کاایک گروپ 15برس بعد اپنے یہاں مسلم وزیراعظم کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
جامعہ اسلامیہ سے264ایرانی طلباء فارغ ہوئے ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟ کیا یونیورسٹی ان سے رابطے میں ہے؟ کیا سفارتخانہ ان سے تعلقات استوار کئے ہوئے ہے؟کیا ایران والی بات ہم دیگر ممالک کے فضلاء پر بھی لاگو کرسکتے ہیں؟
خمینی 8ویں عشرے میں برسراقتدار آئے۔ انکا بنیادی ہدف خمینی انقلاب برآمد کرنا تھا۔ انہوں نے قم شہر میں غیر ملکی طلباء کیلئے عظیم الشان مرکز قائم کرنے کا حکم دیا۔ شروع میں غیر ایرانی طلباء کونسل قائم کی گئی۔ پھر اسے اسلامی علوم کا عالمی مرکز بنادیا گیا۔ 2007ء میں مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای نے اسے المصطفیٰ بین الاقوامی یونیورسٹی میں تبدیل کردیا۔ یہی ادارہ بیرونِ ایران تشیع برآمد کرنے کا واحد ذمہ دار ہے۔ 60ممالک میں اس کی شاخیں کھلی ہوئی ہیں جو اسلام اور ثقافت کے پرچار کے بہانے ایرانی ملائوں کے ایجنڈے کے پرچار میں مصروف ہیں۔
ایرانی جریدے شرق نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی المصطفیٰ یونیورسٹی میں 40ہزار غیر ملکی طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں یہ بات بھی تحریر کی کہ المصطفیٰ یونیورسٹی کا اولیں ہدف بیرون ملک ایران نواز شخصیتوں کی نشاندہی اور انہیں اپنے وطن سے ایران بھجوانا ہے۔ اس یونیورسٹی کا کام یہ بھی ہے کہ وہ ایرانی شہر قم کی علمی درسگاہ میں غیر ملکی طلباء کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر ے پھر انہیں انکے اصلی وطن بھجوائے جہاں یہ فرقہ وارانہ نعرے بازی کریں۔ ایران کے علمی مدارس میں قیام کے دوران انہوں نے جو فرقہ وارانہ اسباق حاصل کئے تھے انہیں وہ اپنے یہاں عام کریں۔ المصطفیٰ یونیورسٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ 122ممالک کے 50ہزار سے زیادہ مرد و خواتین گزشتہ برسوں کے دوران بین الاقوامی المصطفیٰ یونیورسٹی سے فار غ ہوچکے ہیں۔
ایران کے معروف سیاستدان صادق زیبا کلام کا کہناہے کہ ایران کے اندر اور باہر مذہبی مراکز کا بجٹ 8ہزار ارب تومان تک پہنچ چکا ہے۔ یہ رقم امریکی ڈالر میں 17ارب کے برابربنتی ہے جبکہ ایرانی حکومت ماحولیاتی تنظیم کیلئے 3ہزار ارب تومان مختص کئے ہوئے ہے۔
زیبا کلام کا کہناہے کہ ’’اسلامی میڈیا فائونڈیشن‘‘ اور ’’جامعہ المصطفیٰ‘‘ وغیرہ کوئی بھی مذہبی ادارہ نہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے او رنہ ہی ایرانی حکومت انکا مواخذہ کرسکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم غیر ملکی طلباء سے استفادے کی ایسی حکمت عملی تیار کی جانی ضروری ہے جو سعودی وژن 2030سے مطابقت رکھتی ہوتاکہ ایران اور قطر جیسے سعودی مخالف ممالک نے جو مملکت کی گھنائونی تصویر بیرونی دنیا میں مرتسم کی ہے اور سعودی عرب کے حوالے سے مغالطہ آمیز معلومات پھیلائی ہیں انکا قلع قمع ہوسکے۔