شام سے متعلق سوال اور آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے
بدھ 21فروری 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے عربی اخبار ”الجزیرہ“ کا اداریہ
کئی برس سے شام میں ہر طرح کے اسلحہ کی گھن گرج سنائی دے رہی ہے۔ بر ، بحر اور فضا میں مختلف قسم کے اسلحہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ نہ جانے کب امن و امان کاخواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ شام میں ہونے والی تبای و بربادی کو دیکھتے ہوئے کئی سوالات ہر کس و ناکس کی زبان پر ہیں۔پہلا سوال تو یہی ہے کہ آخرشام کی تباہی و بربادی میں حصہ لینے والے ممالک ، جماعتیں اور افراد شام کو اپنی قسمت کا فیصلہ از خود کرنے کا موقع دینگے یا نہیں۔ آیا یہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس ہونگے یا نہیں۔ آیا آئندہ بھی یہ شام ہی میں ڈیرے جمائے رکھیں گے۔
کیا کوئی ایسی طاقت منظر عام پر آئیگی جو ان قاتلوں اور غیر ملکیوں کو شام سے بزور طاقت بھگا دے۔دوسرے الفاظ میں یہ سوال یوں کیا جاسکتا ہے کہ بے مقصد قتل و غارتگری مچانے والوں کو شام سے بھگانے والی کوئی طاقت پیدا ہوگی؟
شام میں جنگ جاری ہے بند نہیں ہوئی۔ راستہ طویل ہے۔ بڑے اور چھوٹے کھلاڑی شامی باشندوں کا خون بہانے میں کسی نہ کسی شکل میں لگے ہوئے ہیں۔ شام میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی ہے جسکی مثال جدید تاریخ میں نظر نہیں آتی۔
شام میں ہر ایک کی زبان پر یہی ہے کہ وہ شام کو انجانے انجام کے حوالے کرکے رخصت نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک ہمارے مفادات اور مقاصد پورے نہیں ہونگے تب تک ہم شام سے نہیں نکلیں گے۔
ایک سوال یہ ہے کہ ہم لوگ کونسی جنگ بند کرنے کی بات کررہے ہیں۔ ہم لوگ کونسی جنگ کے اختتام کے منتظر ہیں۔ شام میں جو جنگ ہورہی ہے وہ اخلاقیات ، انسانی بنیادوں سے یکسر عاری ہے۔ وہاں جنگ کا فائدہ صرف بڑے کھلاڑیوں، ایران ، حزب اللہ، روس ، ترکی اور بشار الاسد کے نظام کو پہنچ رہا ہے ، بس۔
سوالات کا دائرہ یہیں ختم نہیں ہورہا ، شام کے مناظر خون کے آنسو بہانے پر مجبور کررہے ہیں۔ تاریخ انسانیت کیلئے باعث ننگ و عار جرائم پر کبھی معاف نہیں کریگی۔ آج بھی نہ جانے کتنے بوڑھے، بچے او رنوجوان عمارتوں کے ملبے تلے پڑے کراہ رہے ہیں۔ ان کی نعشیں اگر کبھی ان تک رسائی حاصل ہوگئی انسانی تاریخ میں جنگی جرائم کی ایسی کہانیاں بیان کرینگی جنہیں سننے کی تاب نہیں ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭