Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عادل کی ایک نہ چلی روز لڑتا اور مار کھاتا رہا

عادل شادی کرناچاہتا تھا مگر گھر والے اسے پاگل کہتے رہے،بہنیں خوف زدہ ہوچکی تھیں،جس لڑکی کو چاہتا تھا اس کی رضامندی بھی کام نہ آسکی
* * *
مصطفیٰ حبیب صدیقی
* * * *

(دوسری قسط)

    عادل نے خود کو ایک مرتبہ پھر بھرپور زندگی میں لانے کی مکمل کوشش کی مگر اس کے بقول وہ شادی کرناچاہتا تھا اور اس بات کا اظہا ر اپنی ماں سے کربھی دیا ۔ اس نے ایک جگہ ملازمت کرلی۔وکالت کی پریکٹس شروع کردی ۔اس نے بڑے بھائی کو سمجھایا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے اس کی شادی کرادی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی گزار سکے مگر ان کا کہنا تھا کہ تم تو پاگل ہے۔باپ نے بھی یہ کہہ کر بھگادیا کہ ایک پاگل سے کون شادی کریگا۔بہنیں یہ کہہ کر کترانے لگیں کہ کہیں اسے گھر میں دورہ نہ پڑجائے۔چھوٹے بھائی بھی بدتمیزی کرنے لگے۔ہاتھ اٹھانا بھی معمول بن گیا۔عادل واقعی پاگل ہونے لگا۔ہر کچھ دنوں بعد اسے لے جاکر بجلی کے جھٹکے لگائے جانے لگے۔عادل کہتا رہا کہ اس کی بیماری یہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے کئے پر شرمند ہ ہے اور اس کی غلطی کو تسلیم کرکے اسے گھر میں کردار دیا جائے مگر گھر والے اسے ’’دلت‘‘ سمجھتے رہے۔عادل کی ایک نہ چلی۔وہ روز لڑتا او روز ہی مار کھاتا۔وہ لڑکا جو ایل ایل بی شریعہ میں گولڈ میڈلسٹ تھا اسے اس کے میٹرک اور انٹر پاس بھائی مارتے تھے اور یہ سب باپ کی شہ پر ہوتا تھا۔عادل کی ماں بھی اپنے شوہرسے تنگ تھیں مگر پرانے زمانے کے رسم ورواج کے مطابق شوہر کے سامنے آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتی تھیں۔وقت پر لگاکر اڑ رہا تھا ،عادل کے ساتھ ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ بڑے بھائیوںاور 2 بہنوں کی شادیوں کے وقت اسے نفسیاتی اسپتال میں بند کرادیا گیا کہ کہیں وہ گڑ بڑ نہ کردے جبکہ اس کا کہنا تھا کہ وہ جب دوائیں کھاتا تھا تو نارمل رہتا تھا اصل غصہ ہی یہی تھا کہ اسے اپنے آپ کو عزت نہ ملنے پر دورہ پڑتا تھا۔
    عادل نے گھروالوں کو سمجھایا کہ اس کی شادی کردی جائے تو وہ گھر سے الگ ہوکر اپنی نارمل زندگی گزار ے گا مگر گھر والے مانے ہی نہیں ۔وہ اسے پاگل ہی کہتے رہے ۔عادل کو ایک لڑکی پسند تھی اور اس نے بڑے بھائی اور ماںکو راضی کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ اس کے گھر رشتہ لے کر جائیں مگر ان کاجواب یہی ہوتا کہ ایک پاگل سے کون شادی کرے گا؟عادل کے بقول لڑکی کے گھر والے شادی کیلئے تیار تھے بس شرط یہ تھی کہ عادل کے گھر والے رشتہ لے کر آئیں اور عزت سے بیاہ کر لے جائیں۔مگر افسوس گھر والے ’’انا وخوف‘‘ کی دیوار کے سہارے کھڑے رہے۔آخر کار اس لڑکی کی شادی ہوگئی ۔جس کے بعد عادل کے دماغ پر ایک اور جھٹکا لگا اور وہ نیم پاگل ہوگیا۔
    آخر ایک روز عادل گھر سے نکل گیا اور الگ رہنے لگا۔گھر والوں نے بھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی اور یہ سوچا کہ اچھا ہے کہ ایک پتھر تھا جو خود ہی ہٹ گیا۔عادل نے بتایا کہ اس کے بڑے بھائی نے کافی عرصے اس کا علاج کرایا اور اس کے ساتھ رہے ۔بڑے بھائی کا کہنا تھا کہ عادل کو گھر میں نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے ماں بہن کی تمیز کھوچکا تھا اور کسی بھی عورت پر حملہ کرسکتا تھا اس لئے اسے گھر سے نکال دینا ہی حل تھا  چھوٹے بھائیوں کا کہنا تھاکہ ہم اسے کیسے سنبھالیں۔ جب بڑ ے بھائی نہیں سنبھال سکے۔چھوٹے بھائی بھی اچھی ملازمت کرنے لگے تھے تاہم ان کی معاشی حالت بہت اچھی نہ تھی۔
    عادل نے گھر سے نکلنے کے بعد ایک دکان پر ملازمت کرلی جہاں ا س کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی ۔اصل میں یہ دکان ان ہی خاتون کی تھی۔اور خاتون کے بچے 22اور24سال کے تھے۔وہ بیوہ تھیں اور داماد والی بھی تھیں۔عادل نے ان کو شادی کی پیشکش کردی اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے قبول بھی کرلی جس کے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔شادی کے بعد3سال سکون سے گزرگئے ۔عادل اپنے دعوے کے مطابق ایک اسکول میں ملازمت کرتا رہا اور بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ ذمہ داری سے رہتا رہا۔ مگر پھر ایک دن کسی بات پر عادل کا جھگڑا ہوا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔بس ایک مرتبہ پھر عادل کو دورے پڑنے شروع ہوگئے۔
    بیوی کے بچوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔وہ سڑک پر مارا مارا پھرتا رہا۔ایک دوست نے سہار ا دیا تو اس نے صر ف ایک التجا کی کہ بس ایک مرتبہ میری امی اور ابو سے ملوادو۔میں معافی مانگ لوںگا۔عادل زارو قطا ر رورہاتھا ۔وہ 3سال سے ماں کو دیکھنے کیلئے ترس رہا تھا۔ دوست اس کے بے حد اصرار پر اسے اس کے گھر لے گیا مگر چھوٹے بھائیوںنے دروازہ نہیں کھولا۔عادل گڑگڑاتا رہا کہ بس اپنے امی ابو سے ملنے کے بعد واپس چلاجائیگا مگر چھوٹے بھائیوں کو رحم نہ آیاس جس کے بعد عادل کو پھر سے دورہ پڑا او ر اس نے محلے کی درجنوں گاڑیاں پتھر ما ر کر توڑ ڈالیں ،نہ صرف یہ کیا بلکہ اور بھی بہت کچھ کرگیا۔بھائیوںنے نفسیاتی اسپتال کے اہلکا ر بلوائے اور اسے بند کرادیا۔پھر یہاں سے براہ راست حیدر آباد کے پاگل خانے بھجوادیا۔تاہم وہاں ڈاکٹر وں سے گفتگو کے دوران عادل نے انہیں قائل کرلیا کہ وہ پاگل نہیں ہے اور بس کبھی کبھی دورہ پڑتا ہے۔ڈاکٹر وں نے اسے چھوڑدیا اور وہ دوبارہ کراچی آگیا جہاں اس کے دوستوںنے اسے پناہ دی مگر گھروالوںنے ملنے سے پھر انکار کردیا۔وہ تڑپتا رہا کہ بس ایک مرتبہ اپنی امی سے ملے گا اور ابوسے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے گا۔وہ کہتا رہا کہ بس ایک مرتبہ ابو اسے گلے لگالیں مگر کوئی اس کی حالت پر رحم کرنے کو تیار نہ تھا ۔عادل کو پھر سے غصہ آنے لگا ا ور ایک دن پھر اسے دورہ پڑاجس کے بعد اسے پھر سے نفسیاتی اسپتال بھجوادیاگیا اس کے باوجود کہ اس وقت ایک دوسر ے ڈاکٹر جو امریکہ سے پڑھ کر واپس آئے تھے بھائیوں سے کہتے رہے کہ یہ پاگل نہیں ہے بس اسے محبت اور توجہ کی ضرورت ہے کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔عادل کے والد کا یہ حال ہے کہ وہ گھر میں اپنی بچیوں اور بچوں یعنی بہن بھائیوں میں ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کرتے۔ بچیاں ’’پردے‘‘ کے نام پر کہیں نہیں جاسکتیں۔حتیٰ کے خاندان کی شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی نہیںجاتیں۔عادل کو اس کے دوستوں نے
 ایک مرتبہ پھر چھوٹے بھائی کو راضی کرکے نفسیاتی اسپتال سے نکال لیا ہے اور ایک جگہ کمرہ لے کر دیا ہے۔جبکہ ایک دوست نے بڑی قربانی دیتے ہوئے اسے اپنی کمپنی میں ملازمت بھی دیدی ہے۔عادل اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر اس پر ذمہ داری ڈال دی جائے اور شاد ی کرادی جائے تو وہ عام زندگی گزار سکتا ہے بس اس پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
    میں یہاں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ عادل کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟کیا اس کا باپ اس کا ذمہ دار نہیں؟ کیا ایک ڈاکٹر نے اپنی ذمہ داری سے انحرا ف کیا اور راز کو راز نہ رکھا ؟کیا اگر وہ حکمت سے کام لیتا تو عادل کی زندگی پرسکون نہ ہوتی؟ایک گولڈ میڈلسٹ لڑکا کیوںتباہ ہوا؟ہر باپ کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

محترم قارئین !

    اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔
ہم سے فون نمبر 00923212699629پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
    ای میل:[email protected]
 

شیئر: