Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوئے حرم

***جاوید اقبال***
  ایک عزیز دوست نے مجھے واٹس ایپ پر ایک انتہائی دلکش ویڈیو فلم کا ٹکڑا بھیجا جومیں نے فورا اپنے احباب کو فارورڈ کردیا۔ ایک مختصر سا گروہ سر جھکائے مؤدب کسی مقام پر کھڑا ہے اور درمیان میں ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان انتہائی خوش الحانی سے تلاوت قرآن حکیم کررہے ہیں۔ کلمات ربانی کی ادائیگی دلکش ہے۔ تلفظ دلفریب ہے اور آواز اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ رجب طیب اردگان نے کسی پیشہ ور اور ماہر قاری کے زیر نگرانی حسن قرأت کی منزلیں طے کی ہیں۔ جب میں مسحور ہوکر انہیں سن رہا تھا تو مجھے تقریبا 2 دہائیاں پیشتر مملکت میں مامور ترکی کے سفیر امت اریک یاد آگئے۔ ان سے عالمی سیاست پر اکثر گفتگو ہوتی تھی۔ ایک ملاقات میں انہوں نے قرآن حکیم کا ایک نسخہ مجھے ہدیہ کے طور پر دیا تھا۔ ترکی زبان میں ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تھا۔ مجھے نسخہ دیتے وقت ان کی آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں۔ پھر اپنی انگلیوںپر آنسو سنبھالتے ہوئے بولے تھے ’’ میں بھی کتنا بدقسمت ہوں کہ عربی زبان سے نابلد ہوں اور باری تعالی کا پیغام اس زبان میں نہیںپڑھ سکتا جس میں وحی مبارکہ اترا کرتی تھی‘‘۔
آج بھی ان کا دیا گیا قرآن کریم کا ترکی میں ترجمہ شدہ نسخہ میرے پاس محفوظ ہے اور جب بھی اس پر نظر پڑتی ہے تو امت اریک اپنے آنسو اتارتے سامنے آ بیٹھتے ہیں۔ رجب طیب اردگان کی سمع نواز قرأت سن کر مجھے استنبول کی تاریخی مسجد حاجیہ صوفیہ کے اندر گھومتے نوجوان ترک لڑکے اور لڑکیا ں بھی یاد آئے۔ چند برس قبل مجھے اس شہر بے مثال میں کچھ دن گزارنے کا اتفاق ہوا تھا۔ توپ کاپی کے عجائب گھر میں عثمانی سلطانوں کی سطوت وجاہ وقت کے ہاتھوں نڈھال ہوئے پڑے ہیں۔سلیمان اول کے محافظ رسالے کے زرق برق لباس اب صرف نمائش گاہ کی زینت ہی رہ گئے ہیں۔ مسجد حاجیہ صوفیہ کبھی بازنطینی عہد حکومت میں ایک گرجا تھی۔آیا صوفیہ کہلاتی تھی۔
  جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو بحیرہ باسفورس کے ساحل سے اپنے گھوڑے  کی باگ عیسائیوں کے اس مرکز جبروت کی طرف موڑ دی۔ خون آلود لباس میں ہی گرجا گھر میں داخل ہوا۔ پادری اور راہبائیں خوف سے لرزتے تھے اور ستونوں کے عقب میں پناہ ڈھونڈھتے تھے۔ فاتح سلطان نے ان سب کی جان بخشی کی اور گرجے میں نماز ادا کی۔پرشکوہ عمارت کا نام حاجیہ صوفیہ رکھ دیا گیا۔ صلیب ہٹا کر وہاں منبر نصب کیا گیا اور در و دیوار پر آیات ربانی کو انتہائی دلنشین انداز میں تحریر کیا گیا۔ آج بھی حاجیہ صوفیہ کا اندرون اس خطاطی سے جگمگاتا ہے لیکن ایک المیہ ہے۔ نوجوان ترک لڑکے اور لڑکیاں قہقہے لگاتے جوتوں سمیت مسجد کے فرش پر گھومتے پھرتے ہیں لیکن جب ان کی نظریں دیواروں پر تحریر آیات مبارکہ پر پڑتی ہیں تو انہیں پڑھ نہیں پاتے۔ حروف کی اٹھانوں اور گولائیوں کے حسن اور منظم تناسب سے مسحور تو ہوتے ہیں لیکن ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتے اور پھر وہ اداس ہوجاتے ہیں۔ وہ دین جس کا پیغام ان کے آباو اجداد نے صدیوں دوسری قوموں کو دیا تھا اور وہ ہنر تحریر جس میں ترک کاتبوں نے ید طولیٰ حاصل کیا تھا اب سب کچھ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔ مصطفی کمال کی جمہوریت نے ان کا تشخص چھین لیا تھا۔ 13 ویں صدی کے اواخر میں شمال مغربی اناطولیہ کے ایک قبائلی سردار عثمان نے اپنی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ ابتدائی چند عشرے طاقت مجتمع کرنے میں بسر ہوئے۔ 1354ء میں ترک جنگی بجروں نے یورپ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ بلقان فتح ہوا اور سلطنت عثمانیہ کے شاہسوار ساحلوں پر بکھر گئے۔ 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو زیرنگیں کیا تو بازنطینی عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ 16 ویں اور 17 ویں صدیوں میں اور سلیمان اعظم کے دور حکومت میں عثمانی سلطنت ایک کثیر القومی طاقت بن چکی تھی۔ اس کے زیرنگین جنوب مشرقی یورپ ، وسطی یورپ ، مغربی ایشیا ، مشرقی یورپ کے کچھ علاقے اور شمالی افریقا تھے۔ 17 ویں صدی کے آغاز تک یہ سلطنت 32 صوبوں اور متعدد ریاستوں پر مشتمل تھی۔اس کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جہاں سے بحر اوقیانوس کے نواحی علاقوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔ یہ سلطنت 6 صدیوں تک مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا کام کرتی رہی لیکن پھر ہر کمالے را زوالے! نظام باری تعالی صرف تغیر کو ہی ثبات بخشتا ہے۔
1740ء سے 1768ء تک کی تقریبا 3 دہائیوں میں عثمانی تاجدار طاؤس و رباب کا شکار ہوئے اور ان کا عسکری نظام حریف مغربی طاقتوں سے پیچھے رہ گیا۔ پے در پے شکستوں نے گھر دیکھ لیا۔ 13 نومبر 1918ء کو برطانیہ ، اٹلی اور فرانس کی افواج نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا۔ مصطفی کمال اتاترک نے آزادی کے حصول کے لیے جنگ کا سہارا لیا اور بالاخر اپنے وطن کو بچا لینے  میں کامیاب ہوگیا۔ سلطنت عثمانیہ کہیں نہیں تھی۔ یکم نومبر 1922 ء کو اس کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان ہوگیا۔ آخری عثمانی سلطان محمد ششم انتہائی خاموشی سے اور کسمپرسی کی حالت میں قسطنطنیہ سے نکلا، تاریخ کے ستمگر حواشی میں پناہ گزین ہوگیا۔فاتح مصطفی کمال کو اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا لقب دے دیا گیا۔ عربی رسم الخط ترک کردیا گیا۔ لاطینی حروف کا استعمال شروع ہوا۔ خواتین میں بے پردگی کو فروغ دیا گیا۔ دور عثمانیہ کی 6 درخشاں صدیوں کو عجائب گھروں کی زینت بنادیا گیا۔ نوجوان نسل اپنے ماضی اور دین سے بے بہرہ کردی گئی۔
تو جب واٹس ایپ سے ملے ویڈیو فلم کے ٹکڑے میں میں نے رجب طیب اردگان کو انتہائی خوش الحانی سے تلاوت کلام مجید کرتے دیکھا تو میرے دل سے ان کے لیے اور ان کی قوم کے لیے دعا نکلی۔ میں نے دعا کی کہ اے باری تعالی !
بھٹکے ہوئے  آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
 

شیئر: