اسکولی حیات کے دنوں میںہم علم حاصل کرنے اور تعلیمی میدان میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرکے ملک و قوم کو اقوام عالم کیلئے لائق تقلید مثال بنانے کیلئے اسکول پہنچتے۔ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ ’’بوریکس بیڈ ٹیسٹ‘‘ کیا ہوتا ہے، کوئی ہمیں یہ باور کرائے کہ مزاجِ نسواں اور ماہتابِ آسماں میں کیا ربط پایاجاتا ہے ، کوئی ہمیں آگاہ کرے کہ بعض گیسوں کو ’’نوبل‘‘ یا ’’شریف النفس‘‘ کیوں کہا جاتا ہے، کیا باقی گیسیں شرافتِ نفسی کے معیار پر پوری اترنے سے قاصر ہیں،کوئی ہمیں یہ سمجھائے کہ یہ ’’پٹ بیجنا‘‘ گھپ اندھیرے میں کس طرح اتنی دلکش روشنی بکھیرتا پھرتا ہے، کوئی ہمیںیہ آگہی دے کہ آخر روزنِ سیاہ ہر شے کو اپنے اندرکیوں کھینچ لیتا ہے ؟ مگروہاں ہمیں ڈنڈے کے زور پرایسی ایسی ہستیوں کے حالاتِ زندگی رٹائے جاتے تھے جو دنیا میں موجود نہیں ہوتی تھیں ۔ہمیں یہ سمجھایاجاتا کہ300سال پہلے ایک نامی گرامی شاعرگزرے ہیں جن کا نام ’’عمو‘‘ تھا۔ ان کے ابا کا نام ’’نمو‘‘ جبکہ داداکانام ’’ ٹمو‘‘ تھا ۔ ان کی زندگی انتہائی بد حال تھی مگر شاعری بے حد کمال تھی۔انہوں نے2شادیاں کیں ، پہلی بیوی سے شاعر موصوف نے وفا نہیںکی اور دوسری بیوی نے شاعر سے وفا نہیںکی۔ان کے 15بچے ہوئے جن میں سے صرف 12زندہ رہ سکے۔ان میں سے کوئی بھی باپ کی طرح شعر کہنے کے قابل نہیں ہو سکا۔ہمیں یہ تمام ’’معلومات‘‘ پہلے تو لکھوائی جاتیں اور پھر حکم دیاجاتا کہ انہیں گھر سے یاد کر کے آنا، ورنہ وہ مار پڑے گی کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائیگا۔ہم اسکول سے گھر جاتے تو سوالات کی بھرمارکسی ٹڈی دل کی طرح ہمارے ذہن میںداخل ہوتی اورتحصیل علم کے شوق کو روندتی ہوئی تخئیل و تفہیم کی صلاحیتوں کو بانجھ کر جاتی۔اگلے روز ہم اسکول پہنچتے ، مس شکیلہ ہم سے سوال کرتیں کہ بتائیے معروف شاعر ’’عمو‘‘ نے کتنی شادیاں کی تھیں؟ہم فوراً اپنے ذہن کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جھنجھوڑ کر یوں بیدار کرتے جیسے ہمیں امی جان اسکول بھیجنے کیلئے کان سے پکڑ کر بستر سے نیچے اتار دیتی تھیں۔ہماری ذہنی صلاحیتیں ہمیں گزشتہ روز کے سبق میںشامل اعداد یاد دلاتیں۔ گاہے یہ اعداد آگے پیچھے ہو جاتے اورہم کہہ دیتے کہ شاعر جناب عمو نے 15شادیاں کی تھیں۔ یہ سن کر مس شکیلہ ، آگ بگولہ ہوجاتیںاور ہمیں کہتیں کہ اپنے ٹاٹ سے اٹھ کر فوراً تختۂ سیاہ کے سامنے پہنچو اور مرغا بن جائو۔ہم ان کے حکم کی تعمیل کرتے۔
مس شکیلہ کو ہم خواہ مخواہ میں ہی اپنی آئیڈیل استانی قرار نہیں دیتے ، وہ واقعی اس قابل تھیں۔ وہ اتنی رحمدل تھیں کہ کسی کو بھی 31منٹ سے زیادہ مرغا نہیں بناتی تھیں۔ مائل بہ عدل ایسی کہ ہماری ہم جماعت نبیلہ نے بھی ایک مرتبہ ہماری ہی طرح کسی شاعر کی بیویوں کی تعداد غلط بتا دی تو انہوں نے فوراً نبیلہ کو بھی سزا دی مگر چونکہ حقوقِ نسواں انکی اولین ترجیحات میں شامل تھے چنانچہ انہوں نے نبیلہ کو مرغی بننے کی سزا دی ۔ یہ بھی مس شکیلہ کی عظمت کا ایک ثبوت ہے کہ کچی سے لے کر 10ویں تک انہوں نے ہمیں کم از کم 1031مرتبہ سزا دی اور ہمیشہ مرغا بنایا۔کبھی مرغی بننے کیلئے نہیں کہا۔ اسی طرح انہوں نے ہماری کسی بھی مونث ہم جماعت کو کبھی مرغا بننے کیلئے نہیں کہا بلکہ لڑکیوں کیلئے ان کی زبان سے ہم نے ہمیشہ یہی سنا کہ ’’چلو! فوراً مرغی بن جائو۔‘‘ہم جب ان سے استفسار کرتے کہ مس، مس،مس! یہ بتائیے کہ آپ ہمیں مرغا کیوں بناتی ہیں؟ وہ جواباً فرمایاکرتی تھیں کہ’’ در اصل ہر کام کا ایک سلیقہ ہوتا ہے ، ایک طریقہ ہوتا ہے۔اب اگر صنفی اعتبار سے دیکھیں تو میں بذاتِ خود مونث ہوں، ہمارے معاشرے میں مونث بے چاری مظلوم ہی رہتی ہے۔ ساری زندگی مذکر اس پر مظالم ڈھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں مستقبل کے ’’شوہروں‘‘ کو مرغا بنا بنا کر اپنی صنفی بھڑاس نکالتی ہوں کہ آئندہ تو تم نے عورت پر تسلط قائم کرنا ہی ہے ، کیوں نہ آج میں اپنے احکام تم پر مسلط کر دوں؟
ہم مس شکیلہ کی یہ وضاحتیں سن کر ہکابکائی کیفیات اور بھونچکائی محسوسات سے معمور ہو کر مخبوط الحواسی کا شکار ہو کرواہ واہ کہتے، انہیں داد دیتے ۔ ان کا یہ بیان ہماری سوچ کی بلندیوں کو چھونے لگتا کہ ’’ہر کام کا ایک طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے ‘‘ پھر جب اسی کیفیت میں 24گھنٹے گزر جاتے تو ہمارے ذہن میں مس شکیلہ کی عظمت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔کچی سے 10ویں تک ہماری اسکولی زندگی میں ایسے 24گھنٹے 1132مرتبہ گزرے ہیں۔یہ مس شکیلہ کی عظمت کا ہی پرتو ہے کہ آج دنیا میں کہیں بھی ہم کسی بھی شخصیت میں صنفی بھڑاس ، مونث سے ہمدردی اور ایسے ہی دیگر بے مثال وصف دیکھ لیں تو فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ مس شکیلہ کی شاگردہوگی۔
6روز قبل ہم لاہور میں تھے۔ 3ماہ قبل بھی ہم لاہور میں تھے ۔ ان دونوں موسموں میں زمین و آسمان کا فرق ہم نے یوں دیکھا کہ 3ماہ قبل وہاں ہماری رہائش کے گردکا علاقہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ گزشتہ 4سال قبل یہاں کے لوگوں نے نعرے مار مار کر ایک سیاسی شخصیت کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجا تھا،اس نے پلٹ کر علاقے کا رُخ ہی نہیں کیا۔ چند روز پہلے جب ہم اسی رہائش میں سرچھپانے پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہر سڑک کھدی پڑی ہے۔ جگہ جگہ انتباہی ’’جھنڈیاں‘‘ لہرا تی دکھائی دے رہی ہیں اور احساس دلا رہی ہیں کہ ’’ترقیاتی کام جاری ہے‘‘۔اس سیاسی شخصیت نے علاقے کے دورے کرنے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ہم سمجھ گئے کہ یہ شخصیت بھی مس شکیلہ کی شاگرد ہوگی اور ہمارااندازہ بالکل درست نکلا۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیں ہر کام کا ایک طریقہ، ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ ووٹ ملنے کے بعدسیاستدان کو ووٹر کی ضرورت نہیں رہتی اس لئے آپ اپنی من مانی کرسکتے ہیں مگر 4سال بعد پانچویں سال آپ کو آئندہ کے لئے پھرووٹ لینا ہوتا ہے اس لئے کھدائیاں شدائیاں کرا کے لوگوں کو تاثر دینا ضروری ہوتا ہے کہ علاقے میں کام ہو رہا ہے کیونکہ ہر کام کا ایک طریقہ، ایک سلیقہ ہوتا ہے۔
یہاں ایک بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا ’’فریضہ‘‘ انجام دینے والوںمیں کوئی فرد یا شخصیت مس شکیلہ کا شاگرد یا شاگردہ نہیں کیونکہ عروس البلاد میں لوڈ شیڈنگ کا کوئی طریقہ نہیں، کوئی سلیقہ نہیں۔ کبھی صبح 11بجے سے 3گھنٹے کیلئے، کبھی 2.5گھنٹے کیلئے بجلی غائب۔کبھی 2گھنٹے بعد آئی اور 5منٹ کے بعد مزید 2گھنٹے کیلئے غائب۔ پھر شام کے 4بجے ڈھائی گھنٹے کیلئے گئی مگر 2گھنٹے کے بعد آگئی اور پھر 20منٹ کے بعد غائب۔ اس تناظر میں ہم یہ یقین کرنے میں حق بجانب ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ذمہ داران میں کوئی ہستی مس شکیلہ کی شاگردنہیں۔اسکے ساتھ ہی ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ مختلف ا وقات میں کبھی 6، کبھی 8، کبھی 5گھنٹے کی بجائے سلیقے سے طریقے سے باقاعدہ لوڈ شیڈنگ کی جائے خواہ اس کا دورانیہ 10گھنٹے ہی کیوں نہ ہو مگر باقاعدہ ہونا چاہئے ۔ بقول شخصے ’’جوتے مارنے کے باقاعدہ اوقات کار مقرر ہونے چاہئیں،یہ کیا کہ جب چاہے اور جتنے چاہے تڑا تڑ جوتے برسا دیئے۔ آخر کو ہماری بھی کوئی عزت ہے، توقیر ہے، ہم ایسے ویسے نہیں بلکہ ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی اقتصادی شہ رگ، عروس البلاد ’’کراچی‘‘ کے باسی ہیں ، جی ہاں۔