Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پروٹوکول‘‘

***شہزاد اعظم ***
ہم آج کے دور کے سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کا موازنہ جب اپنے دور کے ٹاٹ اسکولوں کے معیار’’ تدریس  و تسبیق‘‘سے کرتے ہیں تو ہماری آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔اس حوالے سے بس ایک مثال ہی آپ کی سٹی گم کرنے  کے لئے کا فی ہوگی۔ آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہ آئے تو ذراشرحِ خواندگی کی فہرست میں اعلیٰ مقام رکھنے والے شہر کراچی کے کسی بھی لال، کالے یا پیلے سرکاری اسکول میں چند لمحوں کیلئے جا گھسیں، ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے پردہ ہوجائیں گی۔ہم یہ بات اتنے وثوق سے اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ ایک مرتبہ ہم اپنے دوست کے ہمراہ ایسے ہی اسکول کا دورہ کر چکے ہیں۔ ہمارے وہ دوست ہمیں ساتھ لے کر اچا نک کالے اسکول پہنچ گئے اور وہاں دسویں جماعت میں جا کربلا تذکیر و تانیث ببانگ دہل لیاقت آزمانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے کون ہے جوتختۂ سیاہ پر’’مس چیف‘‘ کے انگریزی ہجے تحریر کر کے دکھائے گا؟یہ سن کر تو گویا ساری جماعت کو ہی سانپ سونگھ گیا۔ہم برآمدے میں کھڑے کھڑکی سے کمرۂ جماعت کے اندرونی ماحول کا نظارہ کر رہے تھے۔ ہمارے دوست نے کئی مرتبہ اپنی دعوت کو دہرایا مگر کسی نے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی بالآخر ہمارے دوست نے دعوت کا پینترہ بدلا اور کہا کہ چلیں صرف یہ بتا دیں کہ ’’مس چیف ‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ یہ سن کر کئی ہاتھ فضا میں بلند ہوئے۔ہمارے دوست نے اپنی پسند کی ایک شخصیت کو جواب دینے کی اجازت عطا کی۔ اس شخصیت نے جو کچھ کہا، اس نے کم از کم ہمیں بہت کچھ سوچنے ، سمجھنے ، پرکھنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ شخصیت یوں گویا ہوئی:
’’مس چیف در حقیقت دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ایک ’’مس‘‘ اور دوسرا ’’چیف‘‘۔اس دو لفظی مجموعے کے معانی بھی دو ہی ہیں۔ایک معنی تو یہ ہیں کہ مس چیف ہم ہر اس بیوی کو کہہ سکتے ہیں جس کا شوہر کسی بھی ادارے، محکمے، پارٹی،گروہ ، جتھے یا ٹولے کا ’’چیف‘‘ یعنی سربراہ ہو۔اس کے علاوہ دوسرے معنی یوں ہیں کہ اسکول جیسی چہار دیواری میں تدریس کے فرائض انجام دینے والی خواتین کی سربراہ یا سب سے زیادہ تجربہ کار، ہوشیار اور بردبارصنف نازک کو ’’مس چیف‘‘ کہا جاتا ہے یعنی تمام مسوں کی چیف۔‘‘یہ سن کر ہمارے دوست پر غشی کی سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ انہیں فوری طور پر کرسی پر بٹھایاگیا اور پانی پیش کیاگیا۔ہم فوری ڈاکٹر کو بلا لائے، اس نے ہمارے دوست کی حالت دیکھی اور مشورہ دیا کہ اگر آپ کو ا پنی زندگی سے پیار ہے تو آئندہ کم از کم 6ماہ تک کسی درسگاہ کا ہنگامی ، اچانک یا حیران کن دورہ یعنی سرپرائز وزٹ ہرگز نہ کریں۔
ہمیں کالے اسکول کے اس اتفاقی دورے کے موقع پر مس شکیلہ اتنی یاد آئیں، اتنی یاد آئیںکہ انجام کار ہماری آنکھوں سے ایک آنسوٹپک ہی گیا۔ہمیں اپنے ٹاٹ اسکول کا معیار تعلیم اور مس شکیلہ کا اندازِ تدریس یاد آیا۔ہم پکی جماعت میں آئے تو انہوں نے انگریزی کے پیریڈ کو خاص نام دینا شروع کر دیا۔ ایک روز انہوں نے کہا کہ آج ’’ایس ڈے‘‘ ہے چنانچہ میں آپ کو وہ الفاظ اور ان کے معانی سمجھائوں گی جو انگریزی حرف ’’ایس‘‘ سے شروع ہوتے ہیں۔اسی طرح ایک روزانہوں نے ہمیں باور کرایا کہ آج ’’پی ڈے‘‘ ہے چنانچہ انہوں نے انگریزی حرف ’’پی‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معدہ و امعاء میں اوپر سے نیچے کی جانب سکڑائو اور پھیلائو کی لہر جاری رہتی ہے ۔ اس کو ’’پیرسٹیلٹک موومنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ تیز ہو جائے تو دستوں کی شکایت لاحق ہو جاتی ہے، سست ہو جائے تو قبض ہو جاتا ہے اور الٹی چل پڑے تو قے کی کیفیات نمودار ہو جاتی ہیں۔یہ بات ہمیں آج بھی از بر ہے۔
مس شکیلہ نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ پرنسپل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کسی درسگاہ کے سربراہ کو پرنسپل ہی کہاجاتا ہے جبکہ انگریزی میں اصول یا قاعدے کو بھی ’’پرنسپل‘‘ ہی کہتے ہیں۔انہوں نے یہ عقدہ بھی واضح کیا کہ ’’پروٹوکول‘‘ بھی ایک کیفیت ہے جس میں کسی بھی عام جھام انسان کو خاص سمجھا جانے لگتا ہے، اس کو گاہے ضروری اور گاہے غیر ضروری احترام سے نوازا جانے لگتا ہے۔ لوگ اس  کی جوتیاں سیدھی کرنے کی غرض سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس انداز کی جا و بے جا خدمات میسر آنے کے باعث اس شخص کا دماغ ’’خراب‘‘ ہو جاتا ہے اور اس کے مزاج میں رعونت عود کر آتی ہے چنانچہ وہ خدمت گزاروں کی طرف سے ملنے والے تعزز کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے اور اگر اسے کہیں یہ احساس ہو جائے کہ اسے بھی عام جھام سمجھا جانے لگا ہے تو وہ سیخ پا ہو جاتا ہے، اول فول بکنے لگتا ہے اورکچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
اُس یادگار ’’پی ڈے‘‘ میں مس شکیلہ کے پڑھائے ہوئے3لفظوں میں سے 2 ’’پیرسٹیلٹک اور پرنسپل‘‘ سے تو ہمیں کوئی خاص سروکار نہیں رہا البتہ پکی جماعت سے لے کر آج تک جو لفظ ہمیں قدم قدم پر کچوکے لگاتا، ترساتا، تڑپاتا، اُکساتا، اٹھلاتا، اتراتا، ٹھکراتا اور بکھراتا چلا آیا ہے وہ ’’پروٹوکول‘‘ ہے ۔اس لفظ نے ہم سے سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا ہوا ہے کیونکہ ہم پیدائش سے لے کر آج تک پروٹوکول دینے والوں میں ہی شامل رہے ہیں۔ نصف سے زائد صدی گزار دی مگر کبھی 5منٹ بھی ایسے میسر نہیں آئے جن میں احساس ہوسکا ہو کہ ہمیں بھی پروٹوکول دیاجا رہا ہے تاہم حال ہی میں ہم نے ایک ’’عبرتناک‘‘منظر دیکھا کہ جب کسی سے پروٹوکول چھن جائے تو کیا ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ ہم پاکستان سے واپسی کیلئے بورڈنگ کی لمبی قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک صاحب ہمیں پھاندتے ہوئے آگے بڑھے اور ایک اور ’’اونچی ہستی‘‘سے کہا کہ آئیے ۔اس ’’قواعد شکن ‘‘کو دیکھ کرایئر لائنز کا عہدیدار مسکرایا اور اس نے فوراًہی بورڈنگ پاس دے دیا۔اس ہستی کا ’’خادم‘‘دستی سامان اٹھا کر انہیں ’’امیگریشن‘‘ تک لے گیا۔ وہاںا س نے سامان اپنے ’’مخدوم‘‘ کے حوالے کیا ۔ اس نے کہا کہ یہاں کیوں، جہاز تک تمہارا پھوپھڑ ہمیں چھوڑ کر آئے گا؟ یہ سن کر اس خادم نے وہاں نصب ایک تختی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سوری سر! یہ دیکھ لیں، کیا لکھا ہے؟‘‘ہم نے فوراً دیکھا ، اس پر انگریزی میں لکھا تھا’’نو پروٹوکول بیانڈ دِس پوائنٹ‘‘۔ یہ دیکھ کر اس ’’اونچی ہستی‘‘ کا دماغ اونچائی سے زمین پر آگیا اور اس نے اپنا سامان خود اٹھا لیا۔اسے احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان سے باہر نکلتے ہی ساراپروٹوکول دھرا رہ جاتا ہے۔ یقین جانئے اس وقت ہمیں ادراک ہوا کہ دل میں لڈو پھوٹناکسے کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے دل سے دعا نکلی کہ کاش اس تختی کا رُخ بدل جائے تاکہ پاکستان میں قدم رکھنے والوں کو بھی باور کرادیا جائے کہ اس تختی سے آگے ان کو پروٹوکول ہرگزنہیں دیا جائے گا ۔ انہیں ملک کی خدمت کرنی ہوگی،وہ اس ملک میں خادم بن کر رہ سکتے ہیں، مخدوم نہیں۔
 

شیئر: