’’اپنے گھر کا پتہ بتادیجئے۔ ایک دعوت نامہ بھیجنا ہے۔ ‘‘
یہ ٹیلی فون کال اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کی طرف سے تھی۔ اگلے روز بتائے ہوئے پتے پر جو دعوت نامہ پہنچا اس کا مضمون یہ تھا کہ ’’اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم نئی دہلی کے وگیان بھون میں اسلامی وراثت کے موضوع پر خطاب کریں گے اور اس موقع پر وزیراعظم نریندرمودی بھی موجود رہیں گے۔‘‘
یوں تو یہ دعوت نامہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی طرف سے تھا لیکن اس کے آخر میں نہ تو سینٹر کے صدر کا نام درج تھا اورنہ ہی کسی دیگر عہدیدار کا۔ مجھے اس پروگرام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ اس قسم کی تقریبات محض خانہ پُری کیلئے برپا کی جاتی ہیں اور ان میں کوئی روح نہیں ہوتی لیکن اس دوران وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے فون پر دریافت کیا کہ’’ کیا آپ کل کے پروگرام میں شریک ہورہے ہیں۔‘‘ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے غیر معمولی جدوجہد کی جارہی ہے ،ورنہ عام طورپر اس قسم کی تقریبات کیلئے مدعوئین کو فون نہیں کئے جاتے ۔میں نے بوجوہ اس پروگرام میں شرکت سے گریزکیا۔ پروگرام شروع ہوا تو سوشل میڈیا پر اس کے شرکاء نے اپنی سیلفیاں شیئر کرنا شروع کردیں اور یہ تاثر دینا چاہا کہ وہ کسی ایسے پروگرام میں مدعو کئے گئے ہیں جس سے ان کی قدرومنزلت اچانک بڑھ گئی ہے۔ ظاہر ہے جس بڑے پیمانے پر دعوت نامے تقسیم کئے گئے تھے ان میں ایسے لوگوںکا شامل ہونا لازمی تھا جنہوں نے کبھی کسی بادشاہ یا وزیراعظم کے پروگرام میں شرکت نہ کی ہو۔
یہ بات یہاں تک تو ٹھیک تھی لیکن جب سوشل میڈیا پر اس پروگرام کے اسٹیج کی تصاویر آنے لگیں تو مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اسٹیج پر اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم اور وزیراعظم نریندرمودی کے اردگرد علمائے کرام کی جو قطار موجود تھی، اس کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں کے تمام مسلکوں اور مکاتب فکر سے تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دعوت نامے میں صرف اردن کے بادشاہ اور وزیراعظم ہند کا ہی نام درج تھا اور کسی دیگر مقرر یا شریک محفل کا کوئی تذکرہ نہیںکیاگیا تھا۔ میرے لئے یہ موقع خوشگوار حیرت کا تھا کیونکہ مختلف مسالک کے وہ علمائے کرام جو اپنے فروعی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کے روادار نہیں ، وہ وزیراعظم نریندرمودی اور اردن کے بادشاہ کے اردگرد بڑے خوشگوار موڈ میں موجود تھے اور ایک دوسرے سے بغل گیر بھی ہورہے تھے۔
اپنی30 سالہ صحافتی زندگی میں ایسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جن علمائے کرام کے اختلافات نے پوری ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے، وہ اچانک ایک سرکاری پروگرام میں جو ق درجوق اکٹھا ہوگئے ہیں۔ ان علمائے کرام پر ایسا کون سا دباؤ تھا کہ وہ اپنے تمام مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔
ان علمائے کرام میں دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سلفی، صوفی اور بوہرہ غرض یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے جتنے بھی مسالک اور مکاتبِ فکر موجود ہیں، ان سب کی نمائندگی تھی اور ان کا انتخاب بڑی چالاکی سے کیاگیا تھا۔ ان میں چند لوگوں کے نام یہاں درج کرنا ضروری ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
ان علماء میں مولانا محمود مدنی ، مولانا کلب صادق، مولانا اصغر امام سلفی، مفتی مکرم احمد ، شیخ ابوبکر اور دیوان سید زین العابدین کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام شخصیات مختلف اور متضاد مسلکوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا اشتراکِ عمل موجود نہیں ۔ ہندوستان میں ایک پلیٹ فارم مسلم پرسنل لا بورڈ کا ضرور ہے جس میں ان میں سے بیشتر مسلکوں اور مکاتب فکر کی نمائندگی ہے لیکن حالیہ عرصے میں اس پلیٹ فارم پر بھی ایک خاص مسلک اور علاقے کا تسلط قائم ہونے کے بعد اس کی افادیت کچھ کم ہوگئی ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ مذکورہ تمام شخصیات جو ایک ہی اللہ اور ایک ہی رسول کو ماننے والی ہیں اور خود کو اسلام کا سب سے بڑا پیروکار کہتی ہیں، وہ کبھی اپنے فروعی اختلافات کو دور کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئیں اور اچانک حاکمانِ وقت کے اسٹیج پر کیونکر جمع ہوگئیں۔ہمیں کسی کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی روز جزاء کا مالک ہے لیکن ہم اتنا ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ اب جبکہ وہ ایک اسٹیج پر آہی گئے ہیں تو کیا اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کوئی ایسا ملی پلیٹ فارم تشکیل دیں گے جس میں اسی طرح تمام مسلکوں اور مکاتب فکر کے لوگ ایک ساتھ اکٹھا ہوں اور اسلامیانِ ہند کو درپیش سنگین مسائل کیلئے سرجوڑ کر بیٹھیں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو پھر ہندوستانی مسلمانوں کے بیشتر مسائل کا حل نکل آئیگا اور ان کے درمیان حائل مسلکی دیواریں پاش پاش ہوجائیں گی۔
فی زمانہ مسلمانوں کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ مسلکی اختلافات ہیں جنہوں نے پوری ملت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر کررکھاہے حالانکہ حاکمانِ وقت کی دلچسپی اسی میں ہے کہ مسلمان مسلکی اختلافات اور فروعی جھگڑوں میں پڑے رہیں تاکہ وہ اپنی صفوں کو درست نہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے درمیان موجود مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کی طاقت کو کمزور کیاجاتا ہے۔
لیکن اب جبکہ خود ہمارے علمائے کرام اس دیوار کو توڑ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں اور حکومت کو یہ احساس کرادیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو فراموش کرکے یکجا بھی ہوسکتے ہیں تو وقت کا سب سے بڑا امر یہ کہ وہ اسلامیانِ ہند کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لئے ایک متحدہ آواز بن کر آگے آئیں اور تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوائیں۔