نیکی اور اچھائی ہر انسان کے وجودکا خاصہ
زینت شکیل۔جدہ
عائشہ اپنے ہر کپڑے کو ہاتھ سے دھوکر کلف لگا کر خوشبو میں بسا کرہاسٹل میں موجود کپڑے سکھانے والے اسٹینڈ پر پھیلاتی لیکن ابھی کپڑے نم ہی رہتے کہ وہ انہیں اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آتی اور تیزگرم استری سے پریس کر کے ایک ایک جوڑا ہینگر پر لگاتی جاتی۔آج تو اس نے پوری الماری کے کپڑوں کو دھوڈالا تھا۔ تمام سفید کپڑوں میں نیل اور کاٹن کے کپڑوں میں دل بھر اسٹارچ کیا اور اس میں بھر پور خوشبو لانے کے لئے عام دنوں سے د گنا خوشبو کا استعمال کیا اور ڈرائر سے نکالتے ہی پریس کرنا شروع کردیا ۔
صفیہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا، ایک مسحور کن خوشبو کو اپنے ارد گرد محسوس کیا۔ آنکھیں بند کرکے کئی گہری سانسیس لیکر پوچھا آخر تم ایسی سحر انگیز خوشبو لاتی کہاں سے ہو ؟کیا تمہارے گاﺅں میں کوئی ایسا درخت ہے جس میں ایسی زبردست خو شبو والے پھول کھلتے ہیں اور جیسے ہی خالی الماری پر نظر پڑی یکدم پریشانی سے پوچھنے لگی ” کیا تم سارے ہی جوڑوں کو پیک کر کے بھیج دو گی؟ “
عائشہ نے اپنے ہاتھ میں موجودچادر نما دوپٹے کو پریس کر کے تہ کرنے کے بعد ہینگر پر لگا نے لگی کہ کچھ دیر ہوا میں رکھا رہے پھر پیک کیا جائے گا۔ اسکی بات کا مسکراتے ہوئے جواب دینے لگی کہ میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ جن لڑکیوں کو میں نے سلائی، کڑہائی سکھائی تھی، ان لوگوں نے کئی جوڑے میرے لئے ان چھٹیوں میں تیار کر دئیے تھے کہ میرا وقت زیادہ سے زیادہ پڑہائی میں صرف ہو اور دوسرے کام مجھے نہ کرنے پڑیں لیکن وہ جو بات بتانے آئی تھی، اسے تو اس مسحور کن مہک نے بھلا ہی دیا تھا۔ اب اتنی دیر کے بعد خیال آیا تو کہاکہ پیغام دینے کا خیال توشیطان نے بھلا ہی دیا میں تو تمہیں فیلڈ ٹرپ کے فائنل ہو جانے کی خبر دینے آئی تھی ۔ وہ اب اپنے اصل کام کے ہوجانے پر اطمینان کا سانس لے رہی تھی کہ عائشہ نے اسکی ایک ہی سانس میں جلدی سے خبر دینے کے انداز کو مسکراتے ہوئے دیکھا اورکہا کہ اچھا ہواکہ شیطان نے تمہیں سیدنا یوسف علیہ السلام کے قید خانے کے ساتھی کی طرح تین سے دس سال کے عرصے تک نہیں بھلائے رکھا۔
صفیہ آنکھیں اور منہ کھولے حیرت سے پوچھ رہی تھی کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کتنے سال تک بھلائے رکھا اور کیا تم لوگوں نے اتنی دفعہ قرآن مجید تر جمے کے ساتھ پڑھا ہے کہ اس طرح کی مثالیں واقعات اور انبیاءعلیہم السلام کے قصص زبانی یاد ہوگئے ہیں۔عائشہ نے کہا کہ تمہارے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ”بضع“ کا اطلاق عربی میں تین سے دس تک آتا ہے اور دوسرے کا جواب یہی ہے جو ہم تم ہر ایک کو معلوم ہے لیکن ہم کچھ عقل سے کام نہیں لے رہے ہیں۔
صفیہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ معلوم نہیں ہمیں شیطان کب تک اپنے اس دنیا میں آنے کا مقصد بھلائے رکھے گا۔ اب میں نے سوچاتھا کہ جیسے ہی اذان ہوا کرے گی، میں بھی تمہاری طرح اول وقت میں نماز ادا کیا کروں گی لیکن ابھی تک میں نے عصرکی نماز نہیں پڑھی اور اب تھوڑی ہی دیر بعد مغرب کا وقت بھی ہو جائے گا۔
وہ تیزی سے اٹھی اور وضو کرنے چلی گئی ۔وہ اسے وضو کے لئے تیز قدموں سے جاتے ہوئے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ واقعی نیکی اور اچھائی ہر انسان کے وجود کا خاصہ ہے، ضرورت صرف اسے اجاگر کرنے کی ہوتی ہے ۔
٭٭ جانناچاہئے کہ انسان اس فانی دنیا میں بہترین علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے آیا ہے،یہی مقصد حیات ہے۔