عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایران کیساتھ برپا تنارع کی منظر کشی ہمیشہ کچھ اس انداز سے کی جاتی ہے گویا ایرانی نظام اور خلیجی ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی جھگڑا چل رہا ہے۔
اختلاف کی تاریخ طویل ہے۔ اسکی جڑیں اور اس سے متعلق واقعات کافی زیادہ ہیں۔ ان سے انکار ممکن نہیںتاہم یہ بات اپنی جگہ پر حق اور سچ ہے کہ ولایت الفقیہ نظام اور پاسداران انقلاب سے متاثر حکومتیں بھی ہیں اور ریاستیں بھی۔ یہ خلیج سے دور بہت دور واقع ہیں۔
لبنان کے بیشتر عوام نے ایرانی تسلط اور اسکے تصرفات کا خمیازہ کسی بھی عرب ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ جھیلا۔ ایران اور شام کے درمیان اتحاد کے دائرے میں شام پر ناجائز قبضہ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ حزب اللہ لبنان میں ایران کے پولیس اسٹیشن سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ حزب اللہ اپنے بانی ملک ایران کے احکام بجا لانے میں لگی رہتی ہے۔ ایران ہی اسکو بجٹ فراہم کرتا ہے۔ شامی عوام نے اس کی قیمت سب سے زیادہ چکائی ہے۔5لاکھ سے زیادہ شامی ایرانی نظام کے کرتوتوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ دنیا کے مختلف علاقوںمیں گھر سے بے گھر زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر ایران جنگ میں مداخلت نہ کرتا تو اتنا بڑا اور اتنا زیادہ خوفناک المیہ جنم نہ لیتا۔
عراق پر امریکہ کی لشکر کشی کے بعد عراقی ، ایران کی مداخلت سے 2 محاذوں پر متاثر ہوئے۔ ایران نے مسلح سنی مزاحمت کاروں کی پیٹھ تھپتھپائی اور شام سے مغربی عراق لائی جانے والی دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کی۔ ایران نے عراق کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں مسلح شیعہ گروپوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ عراقیوں کی مسلسل ناکامی کی جزوی ذمہ داری ایرانی پاسداران انقلاب کے اس منصوبے کے سر جاتی ہے جس کے ذریعے عراق کی مرکزی حکومت کو کمزور کیا گیا اور مرکز کی بالاد ستی کے اصول کو مسترد کرنے والی مسلح تنظیموں اور سیاسی طاقتوں کو سہارا دیا گیا۔
یمنی عوام ایرانی مداخلت کے آخری شکار ہیں۔ ایران شمالی یمن سے لائی جانے والی مسلح جماعت کے ذریعے صنعاءحکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایران نے اس مسلح جماعت اور انتہا پسندانہ آئیڈیا لوجی اور ہتھیارو ںکے بل پر یمن کو اپنے زیر دست کرلیا۔
ظاہر بات ہے کہ ہم ایرانی نظام سے سب سے زیادہ متاثرین کو بھی اس موقع پر فراموش نہیں کرسکتے۔ ہماری مراد ایرانی عوام سے ہے۔ ایران کے 70ملین باشندے خمینی کے مذہبی انقلاب کے بعد سے انقلابی ملیشیاﺅں کے ذریعے بند جہاں میں زندگی گزار رہے ہیں کہہ سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک کا حال مذکورہ ممالک کے باشندوں سے کہیں بہتر ہے۔ یہ بات اسکے باوجود کہی جارہی ہے جبکہ بحرین، سعودی عرب اور کویت میں بھی ایران باغی گروہ قائم کئے ہوئے ہے۔
اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ لبنان کو پہنچے گا ۔ وہاں امن و استحکام کا دور دورہ ہوگا۔ اگر شام سے قاسم سلیمانی اور اس کی ملیشیاﺅں کو نکال دیا جائے تو اسکا فائدہ شام کو پہنچے گا۔ اگر عراق کی مقننہ اور انتظامیہ کو ایران کے تسلط سے آزادی مل جائے تو ایسی صورت میں تیل سے مالا مال ریاست عراق کے عوام ایکبار پھر خوشحال زندگی گزارنے لگیں گے۔ اگر ایران کو پاسداران انقلاب کے جبر سے نجات مل جائے تو ایسی صورت میں ایرانی عوام سکون اور چین کا سانس لینے لگیں گے لہذا عالمی برادری کا مشن یہ ہو کہ وہ ایرانی نظام کے طور طریقوں کو بدلوائیں۔ محض عسکری و ایٹمی منصوبے کے ناخن کاٹنے سے بات نہیں بنے گی۔ ہم نہیں چاہتے کہ اوہام و خیالات کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ اس کا امکان بہت کم ہے کہ فی الوقت مذاکرات کار امریکی حکومت کی خاموشی، یورپی ممالک اورخطے کی بعض حکومتوں کی مدد کی صورت میں ایرانی نظام پر دباﺅ ڈال کر اس کے طور طریقے بدلوا سکیں گے۔ اگر عوامی دباﺅ ایرانی نظام پر بڑھتا رہا اور اسی کے ساتھ بین الاقوامی دباﺅ بھی شروع ہوگیاتو اس بات کا امکان ہے کہ ایرانی نظام کے طور طریقے بدلیں۔ اگر اس حالت میں بھی وہ مزاحمت کرےں تو پورا نظام تبدیل ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭