عبقری کے من گھڑت وظائف، حقیقت کیا ہے؟
کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ بات قرآن یا حدیث میں موجود بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ہم بدعت کے مرتکب تو نہیں ہورہے
شفیع اللہ خان۔ پاکستان
محترم قارئین۔ انٹرنیٹ پر عبقری ویب سائٹ اور فیس بک پیجز پر روز بروز نئے سے نئے وظیفے دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً آیتیں اور وظیفے پڑھ کرپٹرول کے بغیر گاڑی چلانا تو کبھی بجلی کا میٹر باندھ دینا۔ کبھی بیٹیوں کے رشتوں کیلئے روحانی وظائف، اور کبھی مُردوں کو خواب میں ملنے کے وظائف وغیرہ۔آئیے اس قسم کے وظیفوں اور ٹوٹکوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں موازنہ کریں کہ کیا ایسے وظیفوں کی اسلام میں اجاز ت ہے۔
عبقری نے جس طرح آسانی سے وظائف کی آڑ میں دین اور ایمان کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھا ہوا ہے،کمزور عقائد کے حامل لوگ خواہ وہ کتنے ڈگری ہولڈز ہی نہ ہوں، وہ عبقری کا سب سے آسان شکار ہیں۔
عبقری کے خود ساختہ وظیفوں کا رَداس واقعہ میں بھی ملتا ہے کہ ایک شخص مسجد نبویؐ میں قرآن کی مختلف سورتوں کے فضائل و خواص بیان کر رہا تھا۔سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے اس کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تو یہ خواص نہیں بتائے جن کے سامنے قرآن نازل ہوا ہے ،تمہیں ان خواص کی اطلاع کس نے دی ہے ؟ اس کے بعد آپؓ نے اس کو زبردستی مسجد سے نکال دیا اور فرمایا کہ اگر میں نے آئندہ تمہیں مسجد میں یہ کام کرتے دیکھا تو سزا دونگا۔
دیکھا جائے تو عبقری کے عجیب وغریب وظیفوں کا سورس کیا ہے؟ کس وحی نے ان کو آیتوں کے خواص یا فضائل بتائے ہیں یا ان وظیفوں کے بانی حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کے پاس فرشتہ آتا ہے اور انکو یہ وظائف بتاتا ہے یا یہ سمجھتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کو ان وظیفوں کو علم نہیں تھا اور انہیں پتہ چل گیا ہے اور باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں وظیفہ کرنے کی حضرت حکیم صاحب کی طرف سے سب کو اجازت ہے۔ فلاں وظیفہ صرف تسبیح خانے میں کریں اور فلاں گھر میں نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان سے یہ پوچھیں کہ انکو کس نے اختیار دیا اس طرح اجازتیں دینے کا اوراللہ کے ذکر سے روکنے کا؟
عبقری کا حکیم طارق محمود جتنا جنات کے پاس گیااُتنا تو جنات کو بھی پتا نہیں ہو گا کہ یہ ہمارے پاس آیا۔ یہ عبقری نے پتہ نہیں کہاں سے کوہ کاف دریافت کیا۔ موصوف خود کو جنات کا پیدائشی دوست کہتے ہیں ۔جنات کی کہانیوں سے وہ لوگوں کو خوب بے وقوف بنا رہا ہے اور ہماری جاہل قوم بے وقوف بنتی جا رہی ہے اور زیادہ تر اس کی پیروکار جاہل عورتیں ہیں جو خود کو عبقری حکیم کی مریدنیاں کہتی پھرتی ہیں۔ حکیم صاحب نے دواخانہ انڈسٹری کو رسالے کی آڑ میں کافی مضبوط کیا ہے۔ بہت بڑی مارکیٹ چل پڑی ہے اور اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی حکیم صاحب کی محافل میں شرکت کرنے جاتے ہیں اور ایسے ایسے من گھڑت وظائف لوگوں کو بتلائے ہیں کہ سادہ لوح اور جہالت کے دلدادہ لوگ ہر مسئلے کا شارٹ کٹ لینے کے لیے عبقری کے پھندے کا شکار ہو رہے ہیں۔
دراصل لوگ فٹافٹ حل مانگتے ہیںہر مسئلے کا ،اور عبقری کے وظائف ایسی امید ہی دلاتے ہیںکہ اچھی خاصی تعلیم یافتہ خواتین کے گھر میں بھی میں نے یہ میگزین دیکھے اور بہت افسوس ہوا۔ان کے وظائف کچھ اس طرح کے ہیں:
٭فلموں سے بچنے کا نسخہ ۔
٭ٹریفک جام سے نکلنے کا وظیفہ۔
٭بجلی کا بل کم آنے کا بھی وظیفہ بتایا ۔
٭ امتحان مین 3 پھونکوں والی پہلی پوزیشن آنے کا وظیفہ ۔
٭3 پھونکیں اور چوری ، ڈکیتی ، آگ سے مکمل نجات کا نسخہ۔
٭سورۃ الم نشرح 21 بار صبح و شام اول و آخر3 بار درودشریف۔ طالب علم خود پڑھ لے یا ماں پڑھ کر دم کر دے بہت پْرتاثیر چیز ہے۔ جس وقت بچہ پڑھنے بیٹھے3 بار سورۃ الم نشرح پڑھ لے ،آپ کوئی چیز مطالعہ کر رہے ہیں آپ کہتے ہیں مجھے یاد رہے 3 بار سورۃ الم نشرح پڑھ کے وہ چیز پڑھیں وہ چیز اللہ کے فضل سے یاد رہے گی یا جس وقت وہ موقع ہو گا اللہ پاک وہ یاد دلا دے گا حافظے کے لیے، یادداشت کے لیے، بچوں کے تعلیمی کیرئیر کے لیے ،بچوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ،بچوں کے فیوچر اور مستقبل کے لیے، سورۃ الم نشرح حافظے کو کھول دے، الم نشرح دل کو کھول دے ،لکنت کے لیے21 بار یا 41 بارصبح و شام، جن کی زبان اڑتی تھی لکنت تھی اللہ پاک نے ان کی زبان کھول دی،وغیرہ۔
سوشل میڈیا پر لوگ لکھتے ہیں کہ:
٭ الم نشرح دل کی دنیا کھول دے، جن کا دل اللہ کی طرف راغب نہ ہو، جن کا دل نیکی کی طرف بند ہوتا ہے دل پر ہاتھ رکھ کر 11بار پوری سورۃ الم نشرح پڑھ لے اللہ دل کی دنیا کھول دیتا ہے۔
٭ وضو کے3 گھونٹ سے غصہ، لڑائی جھگڑا ختم ہوجاتا ہے۔ جس کو بھی بتایا ہے وہ اب سکون کا سانس لے رہا ہے۔
٭ آنکھ میں درد تھا میں نے شیشے کے سامنے یہ دعا (بسم اللہ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ) پڑھی اور وضو کے3 گھونٹ استعمال کیے آنکھ کا درد ٹھیک ہو گیا۔
٭حضرت صاحب نے وضو کے بعد3 گھونٹ پانی پینے کا بتایا تھا، اگر منہ میں چھالے ہوں یا منہ پک جائے تو وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ظہر کے وقت کروں تو عصر کی نماز تک ماشاء اللہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
٭میری زبان پر ایک دانہ نکل آیا تھا بہت تکلیف ہونے لگی تھی کچھ ٹھیک سے کھا بھی نہیں سکتا تھا، میں نے کسی دوا کی بجائے وضو کے3 گھونٹ اس نیت سے پینے شروع کر دئیے کہ زبان ٹھیک ہو جائے، اگلے دن زبان پر کسی دانے کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
اور اس طرح کے لاتعداد خود ساختہ من گھڑت وظائف جن کا کوئی ماخد اور دلیل کتاب و سنت میں نہیں ،نا ہی ایسے وظائف ہمیں ھادیٔ برحق کی تعلیمات سے ملتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر عبقری کا اسلام کی بنیادوں پر وار کیا ہوگا کہ وہ تمام مسائل جن کا حل ہمیں کتاب و سنت سے ملتا ہے ،عبقری نے نہایت ہی خطرناک طریقے سے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا۔ قرآن و سنت سے دور کر دیا۔ گویا اب لوگوں کے ہر مسئلے کا حل عبقری کے پاس ہے اور یہ جہالت کی فیکٹری دھڑا دھڑ اپنا زہر فروخت کر رہی ہے۔
اور مسلمان عبقری کا چورن دھڑا دھڑھ خرید رہے ہیں۔آج کل ہر فرقہ اپنے فرقے کے گرو کا دعوائے نبوت بھی تسلیم کرنے پر تیار بیٹھا ہوا ہے لیکن یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ یہ بات قرآن یا حدیث میں موجود بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ہم بدعت کے مرتکب تو نہیں ہورہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کے کام صوفیت اورطریقت سے منسلک ہیں۔ طریقت کے ہرسلسلے کا ایک شیخ، مخصوص ورد اور وظائف اور رسم و رواج ہوتے ہیں، لیکن ان سب میں مشترک یہ ہے کہ یہ سب کچھ کتاب و سنت کے صحیح فہم سے کوسوں دور اور بدعات و خرافات سمیت خود ساختہ عبادات کی ترویج میں خوب مگن ہوتے ہیں اور کچھ غلو کرتے ہوئے اتنا آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ نظریاتی یا عملی شرک میں مبتلا ہیں اور اس کی عجیب و غریب وظیفوں والی پوسٹیں اسلام سے استہزاء کے سوا کچھ نہیں۔ اس تناظر میں ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ عقیدۂ توحید مضبوط بنائے،کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھے، بدعات اور خود ساختہ امور سے بچے کیونکہ راہِ نجات یہی ہے۔
آخر میں یہ حدیث بیان کرنا مناسب سمجھونگا جو امام احمدرحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھا خط کھینچا، اور فرمایا: یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر اس خط کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے، اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں، اور ان میں ہر راستے کی طرف دعوت دینے کیلئے شیطان بیٹھا ہوا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوہُ،وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلہٖ ۔
’’بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے چنانچہ تم اسی کی پیروی کرو اور کسی اور راستے کی پیروی مت کرو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔‘‘(الانعام153)۔
اسی طرح ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہیگا تو وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا، پس تم میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر کار بند رہنا، اسے انتہائی مضبوطی سے تھامنا اور اپنے آپ کو خود ساختہ امور سے بچاناکیونکہ دین میں ہر خود ساختہ بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘