سلمان الدوسری ۔ الشرق الاوسط
شام میں ایرانی افواج کےخلاف اسرائیل کے نام نہاد حملے کے 24گھنٹے کے اندر اندر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو نے دوٹوک الفاظ میں کہاکہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔ ایران کے پیش کردہ مغالطہ آمیز شواہد قبول کرلئے گئے۔ نتنیاہونے مزید کہا کہ ان کا ملک اسرائیل ایران کے ساتھ جنگ کے چکر میں نہیں ۔ دوسری جانب امریکہ کے 3عہدیداروں نے این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل ، ایران کے ساتھ جنگ کی تیاری کررہا ہے۔ جنگ قریب الوقوع ہے۔ اسرائیل اس سلسلے میں امریکہ کی مدد حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ امریکی عہدیداروں نے یہ بھی واضح کیا کہ شام میں حما ہ پر تازہ بمباری اسرائیل نے ایف 15ساختہ لڑاکا طیاروں سے کی تھی اور اسرائیلی طیاروں نے زمین سے فضا میں مار والے میزائلوں کی کھیپ پر بمباری کی تھی۔ اس حملے میں ایران کے دسیوں فوجی مارے گئے۔ایرانی رد عمل اسرائیل کی زبانی دھمکیوں اور چیخ و پکار سے آہنگ شکل میں سامنے نہیں آیا۔ اس سے قطع نظر واقعات پے درپے ہوتے جارہے ہیں۔ ماحول کی گرمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 8دن بعد وہ گھڑی قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے جب امریکی صدر ٹرمپ 12مئی کو ایران کے ایٹمی معاہدے سے انخلاءیا اس میں ترمیم پر ضد اور نئی پابندیوں کے حوالے سے تاریخی اعلان کرینگے۔ نتائج کچھ بھی ہوں ایک امکان اپنی جگہ پر قائم ہے، وہ یہ کہ یہ معاملہ فیصلہ کن قرارداد کا منتظر ہی رہے گا۔
یورپی ممالک گزشتہ 3برسوں سے ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو ناقابل ترمیم مقدس کتاب کا درجہ دیئے چلے جارہے تھے البتہ اب یورپی لب و لہجہ تبدیل ہوا ہے۔ یورپی ممالک ایسے درمیانے حل کا دروازہ کھولنے کی باتیں کرنے لگے ہیں جس کے تحت ایران کا ایٹمی معاہدہ بر قرار رہے۔ امریکہ اس سے روگردانی نہ کرے۔ درمیانے حل کے علمبردار فرانس کے صدر ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ 2015کے وسط میں طے پانیوالے ایٹمی معاہدے پر گفت و شنید کی ضرورت نہیں ۔ اس معاہدے کو کسی حالت میں نہ چھیڑا جائے البتہ مزید 3معاہدے کرکے اس کی خامیوں کو دور کرلیا جائے۔ شام اور یمن کے تنازعات پر فوری مذاکرات ہوں۔ایران کے بیلسٹک میزائلوں کا قضیہ طے کرنے کیلئے بات چیت ہو۔ آخر میں ایران کے ساتھ طے پانیوالے ایٹمی معاہدے کے موثر رہنے کا دورانیہ 10برس مقرر کردیا جائے۔یورپی ممالک یہ ساری باتیں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کی خاطر کررہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کیا گیا ایٹمی معاہدہ ختم کردیا تو ایسی حالت میں یورپی ممالک کے اقتصادی مفادات ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ منظر نامہ ظاہر کررہا ہے کہ یورپی ممالک کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ جس ملک کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا دفاع کررہے ہیں وہ ملک حوثیوں کو سعودی عرب پر حملے کیلئے بیلسٹک میزائل فراہم کررہا ہے۔تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ملیشیا کو ایک ریاست میزائل سے مسلح کررہی ہے۔ یورپی ممالک کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ایران شام ، عراق ، لبنان اور یمن میں اپنے فوجی اڈے قائم کرے نہ کرے۔یورپی ممالک کی دلچسپی کا محور یہ ہے کہ یورپی سرمایہ کار تہران میں رہیں، وہاں سے نہ نکلیں۔دوسری جانب وائٹ ہاﺅس اور امریکی سراغ رساں اس منظر نامے سے تشویش کا شکار ہیں کہ ایران انتہائی تیزی سے میزائل ٹیکنالوجی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اگر ایران پیشہ ورانہ اندازمیں میزائل صنعت میں کامیاب ہوگیا تو وہ کسی نہ کسی دن ایٹم بم بھی بنا لے گا۔ اس سے بہت بھاری نقصان ہوگا۔ ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے نہ صرف یہ کہ سعودی عرب اور اس کے ہمسائے مشکل میں ہونگے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مفادات داﺅ پر لگ جائیں گے۔ایران اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی بابت صرف ایک بات بار بار دہرائے جارہا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ بیلسٹک میزائلوں کا معاملہ ایٹمی معاہدے میں شامل ہی نہیں۔ ایران کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس کے میزائل ایٹم بم لے جانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جہاں تک زمینی حقیقت کا تعلق ہے اور جس کا علم سب کو ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایران کا نیا جھوٹ ہے ۔ ہم سب ایران کی دروغ گوئیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔
پوری دنیا نے لنگڑے لولے ایٹمی معاہدے پر دستخط کیلئے مکمل 10برس کا انتظار کیا اور پھر ایک ہفتے کے اندر اندر معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ بدی کی طاقتوں نے بالواسطہ طریقوں سے مدد کی کہ ایران صرف شام میں 50ہزار انتہا پسندوں کو مسلح کر ے ۔ سعودی عرب واحد ملک تھا جس نے پہلے ہی دن اس کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔ کیا سعودی عرب کے انتباہ میں اب کسی کو کسی طرح کا کوئی شک باقی رہ گیاہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭