Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناقابل فراموش مسئلہ

پیر 7مئی 2018کو مملکت سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض“ کا اداریہ
یہ درست ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے مسائل شاخ در شاخ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی مسئلے کا تعلق تمدن کے کاررواں کی ہمرکابی سے ہے تو کسی مسئلے کا تعلق موجودہ مسائل کے حل سے ہے تاہم عربوں او رمسلمانوں کا بنیادی مسئلہ فلسطین ہی کا ہے۔ یہ نہ بھلایا گیا ہے اور نہ بھلایا جاسکتا ہے۔ یہ جدید تاریخ کا قدیم ترین ایسا مسئلہ ہے جو اپنے حل کا منتظر ہے۔ اس مسئلے پر 70برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اسے حل کرنے کے حوالے سے امن معاہدے مدوجزر کا شکار رہے ہیں۔ افق پر اسکے حل کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ۔اسکے برعکس اس مسئلے کے حل میں پیچیدگیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مبنی برانصاف جامع حل مشکل ہوگا۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اسے نافذ کیا جاسکتا ہے لیکن نفاذ کے حالات ہمیشہ اسرائیل کے حق میں نہ ہونے کے باعث حل نافذ نہیں ہوتا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف اسکے مفادات کا ترجمان ہو۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اہل حق اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں۔ حقداروں کو حق دلانے کیلئے جدوجہد ہوتی رہی ہے۔ آئندہ بھی ہوگی۔ ہمارا مطالبہ صرف یہی ہے کہ ہمیں ہمارا حق دیدیا جائے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے معرض وجود میں آنے کے لمحے سے لیکر تاحال مسئلہ فلسطین کو اپنی پالیسی میں سرفہرست رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی اعتبار سے مسئلہ فلسطین کا سب سے بڑا مدد گار سعودی عرب ہی ہے۔ یہ ایسی سچائی ہے جس پر کسی طرح کی سودے بازی ممکن نہیں۔ یہ لازوال اٹوٹ سچائی ہے۔ مسئلہ فلسطین ایسی صورت میں یقینا حل ہوسکتا ہے جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور مبنی بر انصاف جامع حل تک رسائی کےلئے حقیقی عزم بھی ہو۔ اسرائیل کو بھی اسکی بدولت پائدار امن ملے گا۔ ہم اس سلسلے میں عرب امن فارمولا مثالی حل کے طور پر پیش کئے ہوئے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: