Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینی بھائیو! ہم پر رحم کرو

محمد رضا نصر اللہ۔ الریاض
گزشتہ برسو ںکے دوران سعود ی عرب نے بڑے ممالک کیساتھ تعلقات کی کھڑکیاں کھولی ہیں۔ مغربی ممالک سے ہٹ کر روس اور چین سے بھی تعلقات استوار کئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک امریکہ، برطانیہ ا ور فرانس میںبین الاقوامی نظام کی بنیاد مانے جاتے ہیں۔
سعودی عرب نے چین او رروس کے ساتھ تعلقات استوار کرکے بین الاقوامی تعلقات میں اسٹراٹیجک توازن پیدا کرنے کا اچھا اہتمام کیا۔ حالیہ برسوں کے دوران بین الاقوامی تعلقات کا ڈھانچہ بے نظیر شکل میں تبدیل ہوا ہے۔ تمام ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، مشرق کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ امریکہ مشرقی ممالک کی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کی کوششو ںکے باوجودمشرق کی جانب دیکھ رہا ہے۔
آج میری گفتگو کا موضوع یہی ہے۔ سعودی مارکیٹ میں نقلی سامان بڑے پیمانے پر آنے لگا ہے۔ میں نے اب سے 12برس قبل مجلس شوریٰ کے ایوان میں یہ مسئلہ پوری قوت اورتفصیل کے ساتھ اٹھایا تھا۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ نقلی اشیاءکی درآمد کو پوری قوت سے روکا جائے کیونکہ یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ ہمارے شہریوں کی صحت پر اثر انداز ہورہی ہے بلکہ ہماری قومی معیشت کو بھی تہہ و بالا کررہی ہے۔
2 برس قبل سعودی محکمہ کسٹم کی رپورٹ نے بار بار کے میرے انتباہ کو سچا ثابت کرنے والے چشم کشا حقائق رائے عامہ کے سامنے رکھے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیاہے کہ بری، بحری اور فضائی سرحدی چوکیوں کے راستے نقلی اشیاءبھاری مقدار میں ضبط کی گئی ہیں۔2016ءکی پہلی سہ ماہی کی بابت بتایا گیاہے کہ 20ملین نقلی اور ملاوٹی اشیاءضبط کی گئیں۔ علاوہ ازیں سعودی اسٹینڈرڈ سے مطابقت نہ رکھنے والی 19.7ملین اشیاءکا مملکت میں داخلہ روک دیا گیا۔ یہ تسلیم ہے کہ وزارت تجارت و سرمایہ کاری، محکمہ کسٹم اور سعودی ایف ڈی اے مملکت کے طول و عرض میں رائج نقلی اور ملاوٹی اشیاءکا گھیرا تنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابو ریالین والی دکانوں اور شورومز اور تجارتی مراکز میں اس قسم کی اشیاءکینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ اب تو ای شاپنگ کا سلسلہ بھی اچھا خاصا رائج ہوچکا ہے۔ اس راستے سے بھی نقلی اور ملاوٹی اشیاءکی بھرمار دیکھنے میں آرہی ہے۔ تحفظ صارفین انجمن کو اس سلسلے میں اپنا کردار زیادہ موثر شکل میں ادا کرنا ہوگا۔کھانے پینے کی نقلی اور ملاوٹی اشیاءکا رواج سعودی صارفین کی صحت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ سعودی حکومت کو اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون بھی بنانا ہونگے ۔ مادی مدد بھی فراہم کرنا ہوگی اور لاجسٹک وسائل بھی مہیا کرنا ہونگے۔ 
میری آرزو ہے کہ یہ ہو اورجلد ہو۔
حکومت سے وابستہ توقعات یا عوامی ادارو ںسے جڑی ہوئی امیدوں کی تکمیل یا عدم تکمیل اپنی جگہ پر سہی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نقلی اور جعلی اشیاءکا داخلہ مکمل طور پر بند ہو۔ چین اس کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ چند سال قبل بیجنگ میں سعودی عرب اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اس حوالے سے معاہدے میں کیا کچھ طے پایا۔ معاہدہ ایک شاہی دورے کے موقع پر سعودی وزارت تجارت و سرمایہ کاری اور چین کی کنٹرول اتھارٹی کے درمیان ہوا تھا۔ سعودی وزیر نے اس وقت عہد کیا تھا کہ وہ تجارتی جعلسازی کے قانون کو موثر کرینگے۔ نقلی و ملاوٹی اشیاءفروخت کرنے والوں پر جرمانے لگائے جائیں گے۔ انکا صحیح چہرہ عوام کے سامنے لایا جائیگا۔ اُس وقت دونوں ملکوں میں ایسے تاجروں اور ایسے کارخانوں کو بلیک لسٹ کردیا گیا تھا۔ سعودی عرب میں ملاوٹ اور نقلی اشیاءدرآمد کرنے والوں کو سزائیں دی گئی تھیں۔
میں نے اس معاہدے پر دستخط کے بعد جو تبصرہ کیاتھا وہ آج پھر دہرا رہا ہوں۔ میں نے تحریر کیا تھا کہ ” ہمیں دلچسپی اس بات سے ہے کہ سعودی عرب اور چین کے درمیان نقلی اور ملاوٹی اشیاءکو کنٹرول کرنے کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا ہے اور جس سے سعودی معیشت کو سالانہ 22ارب ریال کا جھٹکا لگ رہا ہے، اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو“۔ 
چین کے عظیم الشان بازار!کیاہم اپنے ساتھ آپ سے رحم کی امید رکھیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: