Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فنِ تحقیق اورعصری تقاضے

انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں، مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر ’’تحقیق‘‘ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے
* * * *
مولاناغازی عبدالرحمان قاسمی۔ ملتان

 

     عصر حاضر میں دینی مدارس اور جامعات علوم اسلامیہ میں تحقیق کے ذوق کو پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اس سلسلہ میں چند اہم باتیں پیش کی جاتی ہیں جو یقینا اس عظیم کام میں معاون ثابت ہوں گی اور میری دلی دعاہے کہ عالم اسلام کو جید اہل علم کی شکل میں نئے محققین ملیں جو امت مسلمہ کو درپیش فکری ونظریاتی مسائل احسن طریقے سے حل پیش کرسکیں۔ اس تحریر میں تحقیق کے معنی ومفہوم اور ضرورت واہمیت کے بارے میں گفتگو ہوگی۔سب سے پہلے یہ جانئے کہ تحقیق کا لغوی معنیٰ کیاہے؟
    ٭ تحقیق کا لغوی معنیٰ:
    تحقیق باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنیٰ چھان بین اورتفتیش کے ہیں(القاموس الوحید) اوراس کا مادہ ح ق ق ہے۔مشہور لغت کے امام خلیل ابن احمد رحمہ اللہ(م170ھ )لکھتے ہیں:
    ’’الحق باطل کی ضد ہے ۔‘‘(کتاب العین )۔
    اسی طرح ایک اور مشہور لغت کے ماہر ابن منظور افریقی رحمہ اللہ(م711ھ)لکھتے ہیں:
    ’’حق باطل کی ضدہے اور اس کی جمع حقوق اور حقاق آتی ہے۔حَقَّ الامرُکا معنیٰ صحیح ہونا اور ثابت ہونا ہے۔‘‘( لسان العرب)۔
    چونکہ حق اور باطل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں،یہی وجہ ہے کہ قران کریم میں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کاحکم دیا گیاہے۔ارشاد ربانی ہے:
    ’’اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔‘‘( البقرہ42)۔
    اسی طرح سچائی کو ثابت اور باطل کا جھوٹ واضح کرنے کے لیے فرمایا:
     ’’تاکہ سچا کرے سچ کو اور جھوٹا کردے جھوٹ کو اور اگرچہ ناراض ہوں گناہ گار۔‘‘(الانفال8)۔
    ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے :
    ’’تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرائے اور کافروں پر الزام ثابت ہو جائے۔‘‘(یٰسین70)۔
    مذکورہ بحث کوسمیٹتے ہوئے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کا لغوی معنیٰ ،چھان بین،حق وباطل میں فرق ،تفتیش اورثابت کرنا وغیرہ ہے۔انگلش میں اس کے لیے’’ Research‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے۔Re کے معنیٰ ہیں دوبارہ اور Search کے معنیٰ ہیں تلاش کرنا تو Research کے معنیٰ ہوئے دوبارہ تلاش کرنا۔
    ٭  اصطلاحی مفہوم:
    تحقیق کی بہت ساری تعریفات کی گئی ہیںجن میں لفظوں کی تعبیر کا فرق ہے تاہم مفہوم اور مدعا تقریبا سب کا قریب قریب ہے۔چند تعریفات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔
    <   تحقیق ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے۔
    <   کسی امر کی شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنا تحقیق کہلاتاہے۔
    <  کسی موضوع کے مواد کی تحقیق کرنا ،تلاش کرنا یا باریک بینی سے مطالعہ کرنا۔
    <  دوبارہ جستجو کرنا اور بار بار تلاش کرنا۔       
     <  حقائق متعین کرنا اور نئے نتائج تک پہنچنا۔    
    <  از سر نو تلاش کرنا یا جدید تحقیق کرنا۔
    <  وسیع پیمانہ پر تلاش وجستجو کرنا۔
    <  مبنی برعقل سوچ یا سوچنے کا عقلی طریقہ۔
             <  ماہرانہ اور مکمل برتاو ٔ۔       
    <  حل کی تلاش۔
             <  درستی وصحت ۔
        <  تجزیہ۔
    <  حقائق کا تعلق۔
    <  تنقیدی مشاہدہ۔
    <  دیانت اور مشکلات۔
          ٭  تحقیق کی ضرورت واہمیت:
    عصر حاضر میں نت نئے چیلنجز اور درپیش مسائل کے حل کیلئے ’’تحقیق‘‘ کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں اسلئے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر ’’تحقیق‘‘ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔چونکہ ہم لوگ اسلامیات کے طالبعلم ہیں،اسلئے ہماری تحقیق کا دائرہ علوم اسلامیہ کے گرد ہوگا۔
    ٭  اسلام میں تحقیق کی اہمیت:
    حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی رہنمائی کیلئے اپنے بعد 2چیزیں چھوڑیں ،کتاب اللہ اور سنت جن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیاچنانچہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذہ تابعین، تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین نے اپنی تمام تر تحقیقات میں مرکزی حیثیت قرآن وحدیث کودی اسلئے کہ قرآن کریم اجمال ہے تو حدیث اسکی تفصیل ہے۔ قرآن کریم متن ہے تو حدیث اسکی تشریح ہے۔قرآن وسنت جس طرح دیگر اہم دینی معاملات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اس طرح تحقیق وتفکر اور تدبر کے بارے میں بھی واضح احکاما ت دیتے ہیں۔قران وسنت سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن سے تحقیق کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی۔
    «  قرآن کریم کی روشنی میں تحقیق کا ثبوت:
    قرآن کریم کی متعدد آیات تحقیق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں:
    ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔‘‘(الحجرات6)
    اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے سوال نقل کرکے جواب کا ذکر ہے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ اور تحقیق کی راہیں ہموار ہوں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’پوچھتے ہیں آپ سے یہ لوگ اے پیغمبر ()چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کہ ایسے کیوں ہوتا ہے؟ تو کہو کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین اور خاص کر حج کے اوقات و تواریخ کی علامتیں ہیں۔‘‘(البقرہ189)۔
    ارشاد باری تعالی ہے :
     ’’پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر شراب اور جوئے کے بارے میں تو انھیں بتا دو کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے۔‘‘ (البقرہ219)۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں؟ تو کہو کہ جو زیادہ ہو تمہاری ضرورتوں سے۔‘‘(البقرہ219)۔
    قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تدبر اور غور وفکر کا حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم)میں؟ یا (ان کے) دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں؟‘‘(محمد24)۔
    یہ تمام آیات تحقیق وتفکر کے بارے میں ہدایات دے رہی ہیں۔اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ کا تفصیلی واقعہ سورۃ الکہف میں آرہاہے۔جب وہ مزید تعلیم وتحقیق کے لیے حضرت خضر ؑ کے پاس پہنچے اور دورانِ سفربہت سی باتوں کا علم ہوا۔
    «  احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تحقیق کاثبوت:
    حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشاداتِ عالیہ میں معاملات اور دیگر اہم امور میں غوروفکر اور تحقیق کرنے کا حکم دیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
     ’’ ہم سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک شخص کو پتھر لگا جس سے اس کا سر پھٹ گیا، اس کو احتلام ہوا ۔اس نے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم مجھے تیمم کی اجازت دیتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ہم تیرے لیے تیمم کی کوئی گنجائش نہیں پاتے کیونکہ تجھے پانی کے حصول پر قدرت حاصل ہے لہٰذا اس نے غسل کیا اور مر گیا ۔جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :لوگوں نے اس کو ناحق مار ڈالا، اللہ ان کو ہلاک کرے۔جب ان کو مسئلہ معلوم نہ تھا تو ان کو پوچھ لینا چاہیے تھاکیونکہ نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے، اس شخص کے لیے کافی تھا کہ وہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارا بدن دھو ڈالتا۔‘‘( ابو داؤد) ۔
    علامہ ابوسلیمان الخطابی رحمہ اللہ(م388ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
     ’’میں کہتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے فتویٰ دینے کی وجہ سے انکی مذمت کی اور ان کیلئے وعید بیان کی ا س طریقے پر کہ ان کیلئے بد دعا کی اور گناہ میں انکو اسکا قاتل قرار کردیا۔‘‘(معالم السنن شرح سنن ابی داؤد)۔
    چونکہ بغیر تحقیق کے یہ فتویٰ دیا گیا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سخت کلمات کہے۔اس لیے حکم دیا ’’فَاِ نَّمَاشِفَائُ الْعِیِّ السُّؤَالُُْ‘‘ تحقیق سے انسان کو درست سمت کے انتخاب میں آسانی رہتی ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
     ’’ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائیگا بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لینے کے ذریعہ سے قبض کیا جائیگا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے پس ان سے پوچھا جائیگا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘( بخاری،الجامع الصحیح)۔
    اس حدیث سے معلوم ہواکہ تحقیق کے ذریعہ گمراہی سے بچا جاسکتاہے۔
    صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں تحقیقی ذوق پیدا کرنے کے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے سوالات کیے۔
     بخاری میں ہے ،ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس میں پت جھڑ نہیں ہوتی اور وہ مومن کے مشابہ ہے،مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کے خیال جنگل کے درختوں میں جا پڑے اور میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا ،(بالآخر) سب لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (ہماری سمجھ میں نہیں آیا)آپ ہمیں وہ درخت بتا دیجیے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (عمر فاروقؓ) سے، جو میرے دل میں آیا تھا ، بیان کیا تو وہ بولے: اگر تو نے یہ کہہ دیا ہوتا، تو مجھے اس سے اور اس سے زیادہ محبوب تھا( مومن کی کھجورکے درخت سے وجہ تشبیہ اس طرح ہے کہ جیسے کھجور کے پتے کبھی نہیں گرتے ،ہمیشہ رہتے ہیں ،اسی طرح مومن ہمیشہ ،نماز،روزہ،ذکر اللہ اور دیگر خیر اور بھلائی کے کام کرتا رہتاہے۔یہ کام اس سے منقطع نہیں ہوتے(ابن بطال،شرح بخاری)۔
    امام ابن بطال رحمہ اللہ(م449ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
     مہلب نے کہا :شاگردوں سے سوالات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں وہ باتیں راسخ ہوجائیں اس لیے کہ جن چیزوں کا مذاکرہ ہوتاہے، وہ جلدی بھولتی نہیں (ابن بطال،شرح بخاری)۔
    ابن بطال رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:امام بخاری کی غرض اس باب (الحیاء فی العلم )کے قائم کرنے سے یہ بیان کرناہے کہ جوحیاء طلب علم سے مانع ہو وہ مذموم ہے(ابن بطال،شرح بخاری)۔
    اس واقعہ سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
    0  دینی اور شرعی امور کے علاوہ دنیاوی باتوں کی تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔
    0  استاد ،طلباء سے ایسے سوالات کرسکتاہے، جن سے ان کے علم میں اضافہ ہو۔
    0 بزرگوں اور بڑوں کی مجالس میں ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
    0 جس چیز کا علم نہ ہو ،اس کے بارے میں پوچھنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے۔
    حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو آپ نے ان سے فرمایا:
    ’’فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے۔‘‘
     انہوں نے کہا: اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟‘‘
     عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
    ’’اگر سنت رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی نہ پاؤ تو؟ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟‘‘
     انھوں نے کہا : اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔
    یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا:
    ’’ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) راضی ہیں۔‘‘(ابو داؤد)۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - -- نیکیوں کا موسم بہار ، سایہ فگن
 

شیئر: