’غزہ کی پٹی میں ایمبولینسز کو نشانہ بنایا گیا‘، اسرائیلی فوج کا اعتراف
دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے فضائی حملوں میں سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے غزہ میں ایمبولینسز کو نشانہ بنایا جبکہ اس سے قبل ان کی شناخت ’مشکوک گاڑیوں‘ کے طور پر کی گئی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پچھلے اتوار کو مصر کی سرحد کے قریب رفح شہر کے علاقے تل السلطان میں اسرائیل نے حملہ کیا تھا جس کے متعلق فوج نے جاری بیان میں کہا تھا کہ ’اسرائیلی فوجیوں نے حماس کی گاڑیوں پر بمباری کی اور حماس کے کئی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔‘
بیان کے مطابق ’چند منٹ بعد مزید گاڑیاں مشکوک انداز میں فوجیوں کی طرف بڑھیں، اہلکاروں نے جواب میں مشکوک گاڑیوں کی طرف فائرنگ کی، حماس اور اسلامی جہاد کے کئی دہشت گرد ہلاک ہوئے۔‘
تاہم فوج کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا ان گاڑیوں میں موجود افراد کی جانب سے فوج پر فائرنگ کی گئی تھی۔
فوجی بیان کے مطابق ’ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مشکوک گاڑیوں میں کچھ ایمبولینسز اور فائر ٹرکس بھی شامل تھے۔‘
بیان میں ’ایمبولینسز کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے‘ کی بھی مذمت کی گئی۔
واقعے کے اگلے روز غزہ کے محکمہ شہری دفاع نے کہا کہ اس کی جانب سے تل السطان کے علاقے میں چھ افراد پر مشتمل ریسکیو ٹیم کو بھیجا گیا تاہم بعد میں اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹیم کے سربراہ کی لاش تباہ شدہ ایمبولینس سے ملی اور ایک فائر ٹرک کا ملبہ بھی ملا جبکہ ریڈ کریسنٹ کی ایک گاڑی کا ملبہ بھی ایک سڑک سے ملا۔
حماس کے ترجمان ناسم نعیم نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ ’اس کی جانب سے جان بوجھ کر شہری دفاع اور ریڈ کریسنٹ کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور ہونے والے ریسکیو ورکرز کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر کا کہنا ہے کہ ’18 مارچ کے بعد سے گنجان آباد علاقوں میں فضائی حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں عام شہری اور بچے بھی شامل ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مریض ہسپتالوں میں مارے گئے، ایمبولینسز کو نشانہ بنایا گیا یعنی فرسٹ رسپانڈرز کو ہی مارا گیا۔‘