صفوق الشمری ۔ الوطن
پرانی حکمت ہے ”جو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھو اسے اپنے منہ سے نہ بولو“۔یہ ہے نیا سعودی عرب ۔ ہمیں مغربی صحافت کی جانب سے پھیلائی جانیوالی خبروں سے کوئی خوف نہیں ۔ہمارے پاس ایسی کوئی بات نہیں جسے ہم چھپائیں ۔خاموشی کا قدیم طریقہ لد چکا ہے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے چندہفتے قبل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عہدیداروں میں اختلافات کے باعث مملکت میں شمسی توانائی کا عظیم الشان منصوبہ تعطل کا شکار ہوگا۔ دعویٰ یہ بھی کیا گیا تھاکہ مملکت کے انتہائی باوزن عہدیداروں میں شمسی توانائی منصوبے پر زبردست اختلافات ہیں۔
رپورٹ کس نے لکھی، کہاں سے معلومات حاصل کیں، ان سب کو چھوڑیئے۔ میں اس کا جواب 2طریقے سے دینا چاہونگا۔اول تو یہ کہ خود مغربی صحافت اس حوالے سے کیا کچھ خبریں شائع کرچکی ہے ، دوم یہ کہ مملکت میں توانائی کے منصوبوں کی حقیقت کیا ہے؟۔
سعودی ولیعہد نے انتہائی اہم کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے وزارتوں کے درمیان موجود خلیج اور لاتعلقی ختم کرادی۔ ماضی میں ہر وزارت اپنی جگہ ایک ریاست کی شکل اختیار کئے ہوئے تھی۔ وزیر سیاہ وسفید کا مالک ہوتا۔ وہ کسی بھی ناپسندیدہ منصوبے کو معطل کردیتا تھا۔یہ کوئی راز منکشف کرنے والی بات نہیں کہ ماضی میں متعدد وزارتوں کے درمیان ربط و ضبط نہ ہونے کے باعث کئی منصوبے تعطل کا شکار ہوگئے۔ اب صورتحال بدل چکی ہے۔ کئی وزارتیں ایک دوسرے میں ضم کردی گئی ہیں۔ موجودہ وزارتوں کے درمیان تال میل قائم کردیا گیاہے۔ اقتصادی و ترقیاتی امور کونسل بھی ہے۔ منصوبوں پر نظر رکھنے والا ادارہ بھی ہے۔ آخری فیصلہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لہذا وزراءہوں یا دیگر اعلیٰ عہدیدار،ان کے درمیان نکتہ ہائے نظر میں اختلافات بفرض محال مان لیا جائے، ایسی صورت میں بھی کام کی رفتار متاثر نہیں ہوگی کیونکہ اقتصادی و ترقیاتی امور کے سفینے کا قائد ایک ہے۔ وہی منصوبوں کی منظوری دیتا ہے اور وہی ان کی دیکھ ریکھ بھی کرتا ہے۔ بسا اوقات مغربی صحافت نے تسلیم کیا کہ اقتصادی و ترقیاتی امور کونسل سعودی وزراتوں کے درمیان رابطے کی گتھی کا معقول حل ہے۔ مغربی صحافی ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں تبدیلی اس لئے آسان ہوگئی کیونکہ وہاں فیصلہ ساز طاقت ایک ہے اور سب کو پتہ ہے کہ وہ کون ہے۔
اس حوالے سے مجھے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ دیکھ کر اچنبھا ہوا ۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس درجے کا اخبار انویسٹمنٹ فنڈ اور وزارت توانائی کے درمیان نقطہ ہائے نظر میں ممکنہ اختلاف کو شمسی توانائی جیسے عظیم الشان منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ قراردے رہا ہے۔ اخبار مذکور کے رپورٹ کنندگان شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ مغربی صحافت” سعودی وژن 2030“کے عملے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے رہے کہ سب کے سب ایک رنگ اور ایک سوچ کے حامل ہیں۔ٹیم میں مختلف الفکر افراد ہونے چاہئیں تاکہ بحث و مباحثہ ہو، مکالمہ ہو۔ اب یہی صحافی اس کے برعکس کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ جب فکر و نظر کے اختلاف کی صورت میں مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آنے لگےں تو اسے وہ لوگ عظیم الشان منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کا نام دینے لگے۔
مغربی صحافت جب بھی سعودی وژن 2030میں شامل افراد پر تحریر کرتی ہے تو سعودی عہدیداروں کے کردار اور ان کے سی وی کی تعریف کرتی، اقرارکرتی ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور ہیں ۔مغربی صحافت کی اکثر رپورٹیں یہ تھیں کہ سعودی عرب میں اقتدار کے نظام کا ڈھانچہ مغربی ممالک سے کہیں زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ فیصلہ کن تبدیلی لانے میں معاون ثابت ہوگا۔ مغربی صحافی اس کے حق میں دلائل بھی دیتے رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں شمسی توانائی کے موضوع پر طویل عرصے سے لکھ رہا ہوں۔مجھے یاد ہے کہ جب 200گیگا واٹ کے شمسی توانائی کے منصوبے کا اعلان کیا گیا توسوشل میڈیا پر بہت سارے لوگوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو واقعی شاہی منصوبہ ہے۔ میں نے اس موضوع پر دسیوں مضامین قلم بند کئے۔ اگر مجھے مبالغے کا خوف نہ ہوتا میں اس منصوبے کی بابت لکھتا کہ سعودی عرب پر اس منصوبے کی بدولت سونے کی بارش ہونے لگی۔شروع میں ہم نے ایٹمی توانائی سٹی کے بعض عہدیداروں کو شمسی توانائی کی اہمیت منوانے کیلئے بڑی محنت کی تاہم افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ مخالفت پر کمر بستہ رہے۔ ولیعہد نے ہمارے ساتھ انصاف کیااور انہوں نے اس منصوبے کی اہمیت کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا۔ماننا پڑتا ہے کہ شمسی توانائی سے استفادے میں تاخیر کا سبب فائننشل ٹائمز کے دعوے کے مطابق عہدیداروں کا اختلاف نہیں بلکہ ایٹمی توانائی سٹی کے بعض عہدیداروں کی ذہنیت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭