احمد عبدالرحمان العرفج ۔ المدینہ
2روز قبل عسیر کی لڑکیوں نے ایک پیغام بھیج کر کہا کہ جنوبی علاقے میں خواتین کو کار ڈرائیونگ سکھانے کیلئے اسکول نہیں ۔عسیر کا علاقہ بڑے وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔میں نے عسیر کی لڑکیوں کا مکتوب شائع کردیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ معاملہ یہیں ختم ہوگیا۔ اسی دوران مجھے مدینہ منورہ کے باشندہ کی جانب سے بھی ایک مکتوب موصول ہوا جسے پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ انہوں نے انتہائی پیار ، محبت اورالفت کےساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے وہی مطالبہ دہرایا جو عسیر کی لڑکیوں نے اپنے تحریری پیغام میں مجھ سے کیاتھا۔ مراسلہ نگار ہمارے ایک دوست عمر الرحیلی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ :
”ڈاکٹر احمد العرفج صاحب! سلام مسنون کے بعد عرض ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ تقریباً10 ماہ قبل شاہی فرمان جاری کرکے خواتین کو 10شوال سے گاڑیاں چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ اب تک شاہی فرمان پر عملدرآمد کرانے والے ادارے مدینہ منورہ کے حوالے سے متحرک نہیں ہوئے ۔ یہاں خواتین کےلئے تاحال کوئی بھی ڈرائیونگ ٹریننگ سینٹر قائم نہیں ہوا۔ یہاں لڑکیاں اور خواتین ڈرائیونگ کی اجازت کی تاریخ کا بے قراری سے انتظار کررہی ہیں۔ وقت قریب آچکا ہے اور وہ مقررہ تاریخ سے قبل ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹریننگ اسکول کے قیام کو ایک تفریحی موضوع کے طور پر لے لیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خواتین کیلئے ڈرائیونگ تفریحی نہیں بلکہ انتہائی بنیادی ضرور ت ہے۔ ہماری بیویاں اور بہنیں ڈرائیونگ سیکھ کر زندگی کے مختلف فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہمارا ہاتھ بٹا سکیں گی۔ ایسا لگتاہے کہ
ٹریننگ سینٹر کے ذمہ داران کی نظروں سے یہ پہلو اوجھل ہے۔
*******