رمضان المبارک ، فیوض و برکات کا مہینہ
روزہ صرف کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری’’ اسپرٹ‘‘ کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت ڈالنا اس کا مقصد ہے
* * *ڈاکٹر مرضیہ عارف ۔ بھوپال* *
ماہ رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں، برکتوں اور رونقوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔مسجدوں کی زیبائش بڑھ گئی ہے ، گھروں میں افطار وسحر کی گرم بازاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ پورے مسلم معاشرہ میں تقویٰ وپرہیزگاری کی نورانی چادر تنی نظر آتی ہے۔ خالق کائنات نے انسانوں کو یہ خوش خبری سنادی ہے: جو اس ماہ میں ایمان ویقین اور اجر وثواب کی نیت سے روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادے گا۔ اسی طرح عام دنوں کے نیک اعمال پر ملنے والا 10گنا اجر اس ماہ میں بڑھا کر 70 گنا کردیا گیا ہے۔جہاں تک روزہ کا سوال ہے تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود مرحمت فرمائے گا، اس لئے ماہ رمضان میں صرف روزہ رکھنا ہی کافی نہیں ، اُس کی حفاظت بھی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہر مسلمان کی رات، روزہ رکھنے کے اہتمام میں اور دن، روزے کی حفاظت میں صرف ہو۔
یہی وہ مہینہ ہے جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ پر آسمان سے صحیفہ نازل ہوا، حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور عطا ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توراہ اتری اور ہمارے نبی آخر الزماں محمد عربی پر قرآن پا ک کا نزول ہوا۔ اس ماہ کی قرآن سے گہری نسبت ہے۔خود رسول اکرم نے ارشاد فرمایا
’’ہر چیز کی ایک بہارہے اور قرآن پاک کی بہار ماہ مبارک رمضان ہے۔‘‘
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ روزہ کی مقصدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
یا ایھاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)۔
اس آیت شریفہ میں’’ لعلکم تتقون‘‘ (تم پر روزہ اسلئے فرض کیا گیا کہ تاکہ پرہیزگار بن جائو) بڑا بلیغ جملہ ہے۔تقویٰ کیا ہے؟ اس کی نہایت اعلیٰ تشریح صحابی رسول اللہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے اُن سے سوال کیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟
سیدنا ابی بن کعبؓ نے کہا:
’’کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں؟ ‘‘
حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا ’’ہاں‘‘۔
پھرسیدنا کعبؓ نے پوچھا:
’’آپ اس راستے کو کس طرح طے کرتے ہیں؟‘‘
حضرت عمر فاروق ؓ کا جواب تھا کہ میں اپنے کپڑوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتا ہوں، کہیں وہ جھاڑیوں میں الجھ نہ جائیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’بس یہی تقویٰ ہے۔‘‘
غور کیا جائے تو یہ مثال پوری دنیاوی زندگی پر صادق آتی ہے۔دنیا کی یہ گزرگاہ بھی دو رویہ خواہشوں اور تحریصوں کی خاردار جھاڑیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس میں احتیاط نہ برتی جائے تو دامنِ حیات قدم قدم پر تار تار ہوسکتا ہے۔قرآن حکیم کی تعریف کے مطابق متقی وہ ہے جو زندگی گزارنے میں احتیاط سے قدم بڑھائے اور اپنے دامن کو گناہوں کے کانٹوں سے بچاتا ہوا منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ روزہ صرف صبح سے شام تک کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری’’ اسپرٹ‘‘ یا ’’جذبہ‘‘ کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت ڈالنا، اس کا مقصد ہے، اسی لئے روزہ کے دوران گناہوں سے بچنا، فحش گوئی سے پرہیز اور لڑائی جھگڑے سے گریز ضروری ہے۔ نمازوں کا اہتمام اور تلاوت میں وقت گزارنا بھی روزہ کے مشاغل میں شامل ہیں۔ روزہ دار کو روزہ رکھ کر غریبوں کی بھوک وپیاس کا احساس ہونا چاہئے تاکہ اس میں صلہ رحمی کا جذبہ پیدا ہو۔یہ پورا مہینہ عالم انسانیت کیلئے ہمدردی وغم گساری کا مہینہ ہے۔ لاکھوں انسان جو فقر وفاقہ کی زندگی گزارتے ہیں، ان کی مفلسی اورمحتاجی کا احساس ہمیں یہی مہینہ دلاتا ہے جس میں کھاتے پیتے مسلمان اپنے صدقات وزکوٰۃ کے ذریعہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔
روزہ ایک خاموش عبادت ہے، جس میں دکھاوے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔یہ صرف اللہ کیلئے رکھا جاتا ہے اور انسان میں یہ اہلیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اَن دیکھے رب کے حکم پر حلال کئے گئے اس کے روزق سے ایک مقررہ وقت تک بچے۔عبادت کی کوئی دوسری شکل ایسی نہیں، جس میں انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح جواب دہ ہونے کا تصورپیدا ہوتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ ؒ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’اگر اس مہینہ میں کسی آدمی کو اعمالِ صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال یہ توفیق اس کے شامل حال رہے گی اور اگر یہ مہینہ بے دلی، بے فکری اور انتشار کے عالم میں گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔‘‘
اہل اسلام کے روزوں کی بھی ایک الگ شان ہے۔ دیگر مذاہب میں روزوں کا اہتمام ہوتا ہے لیکن رمضان میں مسلمانوں کے روزوں کو جو مرتبہ حاصل ہے، وہ دوسر ے مذاہب میں نظر نہیں آتا۔ اس پورے ماہ میں مسرت وشادمانی کی ایک فضا طاری ہوجاتی ہے ۔ بڑے تو بڑے بچے بھی ضد کرتے ہیں کہ وہ روزہ رکھیں گے۔ عبادت میں مشغولیت، سحر وافطار کی سرگرمیاں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہر غلط کام سے پرہیز اس ماہ کو بابرکت بنادیتے ہیں اور اعمال نیک کی خوشبو ہر طرف پھیلی نظر آتی ہے۔
خواتین سے میری گزارش ہے کہ وہ رمضان میں افطار وسحری کی تیاری کیلئے خود کو وقف کرکے بیشتر وقت کچن میں نہ گزاریں بلکہ اس ماہ کے فیوض وبرکات سے استفادہ کیلئے بھی وقت فارغ کریں۔مردحضرات کو بھی کوشش کرنا چاہئے کہ یہ ماہ مبارک پورے آداب کی
رعایت کے ساتھ گزارے اور ان تمام اعمال کا اہتمام ہو، جو اس مہینہ میں مقصود ومطلوب ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس پُربہار موسم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اجر وثواب سے اپنی جھولیاں بھرلیتے ہیں۔