Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لارڈز کی کامیابی اور مدثر نذرکی تاریخی بولنگ

 
انگلینڈ میں حالیہ ٹیسٹ سیریز کے دوران پہلے میچ میں تاریخی لارڈز کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان نے 9 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی، اس ٹیسٹ میچ کا فیصلہ کھیل کے چوتھے ہی روز ہو گیا اور یہ ٹیسٹ انگلینڈ میں کسی بھی ٹیم کی سب سے بہترین کامیابی قرار پایا۔پاکستانی ٹیم اس سے پہلے بھی انگلینڈ میں کامیابیاں سمیٹ چکی ہے اور یہاں انگلینڈ میں پاکستان کی 5 نمایاں کامیابیوں کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے ۔
لارڈز ٹیسٹ: 1982
لارڈز کرکٹ گراونڈ میں 1982 کے ٹیسٹ میں عمران خان نے نمایاں کارکردگی پیش کی تھی۔ اپنی ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز کے بعد28 سال تک پاکستان نے انگلینڈ کی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا اور جب گرین کیپس نے 1982 میں لارڈز کے کرکٹ گراونڈ میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیلا تو 10 وکٹوں سے پہلی کامیابی سمیٹی۔ یہ عمران خان کی کپتانی کی ابتدا تھی جس کے بعد وہ دنیا کے نمبر ون بولر بن کر بھی ابھرے۔میچ کی خاص بات یہ تھی کہ میچ کئی بار بارش اور کم روشنی کے باعث متاثر ہوا لیکن پاکستانی بلے بازوں نے این بوتھم، روبن جیک مین اور ڈیرک پرنگل جیسے بولروں کے سامنے ہیلمٹ کے بغیر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔انگلینڈ کی شکست میں عبدالقادر، سرفراز نواز اور عمران خان نے بڑا کردار ادا کیا لیکن مدثر نذر نے 32 رنز کے عوض 6 کھلاڑیوں کو آوٹ کر کے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا جس پر انہیں مین ود گولڈن آرم ( سونے کے بازو والا شخص) کا لقب دیا گیا۔ 
ہیڈنگلے ٹیسٹ: 1987 
جولائی 1987 میں ہی عمران خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو ہیڈنگلے میں اننگز اور 18 رنز سے شکست دی اور میچ کا فیصلہ کھیل کے چوتھے روز ہی ہوا۔پاکستان کی تباہ کن بولنگ کے سامنے انگلش ٹیم پہلی اننگز میں 136 رنز بناسکی جس کے جواب میں پاکستان نے 353 رنز بنائے۔ انگلش ٹیم دوسری اننگز میں بھی 199 رنز ہی بناسکی، میچ کے ہیرو کپتان عمران خان قرار پائے جنہوں نے دوسری اننگز میں 40 رنز کے عوض 7 وکٹیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر 10 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
لارڈز ٹیسٹ 1992
سنسنی سے بھرپور 1992 کے لارڈز ٹیسٹ کو کون بھول سکتا ہے جس میں پاکستان نے دلچسپ مقابلے کے بعد دو وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنی مضبوط بولنگ کا عملی مظاہرہ کیا اور پہلی اننگز میں 42 رنز کے اضافے میں 6 اور دوسری اننگز میں 55 رنز میں 7 انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے صرف 138 رنز کا ہدف ملا لیکن کرس لیوس اور این سیلسبری کی شاندار بولنگ نے یہ ہدف پہاڑ جیسا بنادیا۔ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے 6 بلے باز ڈبل فگرز میں بھی داخل نہ ہوئے۔ میچ بظاہر پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا لیکن ساتویں پوزیشن پر بیٹنگ کیلئے آنے والے وسیم اکرم انگلش بولروں کے سامنے ڈٹ گئے۔ وسیم اکرم کے ناقابل شکست 45 رنز کی بدولت پاکستان نے میچ اپنے نام کیا اور بہترین کارکردگی پر انہیں مین آف دی میچ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 
اوول 1992
انگلینڈ کے خلاف 1992 میں اوول کے گراونڈ میں حاصل کی جانے والی کامیابی بالکل اسی طرح ہے جس طرح پاکستانی ٹیم نے 2018 میں لارڈز میں حاصل کی۔وقار یونس، وسیم اکرم، مشتاق احمد اور عاقب جاوید کی شاندار بولنگ نے انگلش ٹیم کو پہلی اننگز میں 207 رنز تک محدود رکھا۔1992 کے اوول ٹیسٹ میں وقار یونس اور وسیم اکرم نے 4،4 وکٹیں حاصل کیں اور لیگ اسپنر مشتاق احمد نے 2 جب کہ گزشتہ ہفتے لارڈز ٹیسٹ میں اسی طرح کی پرفارمنس دیتے ہوئے محمد عامر اور محمد عباس نے 4،4 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا اور لیگ اسپنر شاداب خان نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔یہ مماثلت اپنی جگہ بڑی حیران کن ہے صرف کامیابی کا تناسب مختلف رہا کہ1992 میں پاکستان نے میچ 10وکٹوں سے جیتا جبکہ اس سال کی کامیابی9وکٹوں سے ہوئی۔
لارڈز ٹیسٹ 2016 
2016 میں مصباح الحق کی قیادت میں لارڈز کے میدان میں کامیابی اس وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے کہ یہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد اس میدان پر پاکستان کا پہلا میچ تھا اور اس وقت پاکستانی ٹیم پاک فوج کے ٹرینرز کی نگرانی میں شدید فٹنس مسائل سے جان چھڑا کر انگلینڈ پہنچی تھی۔ اسی طرح کپتان مصباح الحق لارڈز کے میدان میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہے تھے اور انہوں نے اس میچ میں سنچری بھی اسکور کی۔ فاسٹ بولر محمد عامر بھی اسپاٹ فکسنگ کی سزا کاٹنے کے 6 سال بعد ا±سی گراو¿نڈ میں اترے تھے جہاں سے ان پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات لگے۔پاکستان نے انگلینڈ کو 75 رنز سے شکست دی جس کے بعد کھلاڑیوں کی جانب سے لگائے جانے والے پش اپس نے اس کامیابی کو بھی تاریخی بنایا۔ٹیم نے اس طرح پاک فوج کو بھی خراج تحسین پیش کیا جس پر بعض سیاسی حلقوں نے ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا۔
 

شیئر: