اوائل عمری سے ہی ہمیں دوستیاں گانٹھنے کا بے انتہاء شوق رہا ہے۔ ہم جہاں بھی جاتے ، دوست یا دوستی ضرور بناتے۔اس حوالے سے سب سے زیادہ زرخیز اسکولی دور رہا کیونکہ وہاں طرح طرح کے دوست اور وضع وضع کی دوستیاں تھیں۔یہ چونکہ فطرت انسانی ہے کہ جب کوئی بھی شے بافراط میسر آجائے تو وہ اس میں چنائو شروع کر دیتا ہے چنانچہ کم تر کو مسترد اور برترکو اپنانے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے اسی لئے ہمارا ٹاٹ اسکول وہ مادر علمی تھا جہاں ہم نے انگنت دوستیاں کیں، کئی کو چھوڑا، کئی کا دل توڑا، کئی کو اپنایا اور کئی کودوستی کے نام پر بہلایا۔انہی میں ایک دوست جمپر تھا۔ اس سے ہماری دوستی کافی گہری تھی۔ہمارا دل چاہتا تھا کہ 24گھنٹے اس کے ساتھ رہیں، اس کے بارے میں مزیدجانیں اور اس کی ہر بات دل سے مانیں۔ وقت اچھا گزر رہاتھا کہ اچانک جمپر کے والد کا پنڈ دادنخان تبادلہ ہوگیا۔ہمارا دل تو جیسے چکنا چور ہو گیا۔طویل عرصے تک ہم اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے۔وہ دور پسماندگی میں آج کے دور سے کہیں زیادہ آگے تھا، فون ہوتے تھے مگر انہیں چلنا پھرنا نہیں آتا تھا یعنی وہ ’’موبائل‘‘ نہیں ہوتے تھے جبکہ اسمارٹ فون کا تو تصور بھی نہیں تھا اس لئے ہم انتہائی ’’نان اسمارٹ‘‘ حرکتیں کرنے کے عادی تھے۔ ہم وقتاً فوقتاً، گاہے بگاہے، اکثر و بیشتر اپنی والدہ کے گھٹنے سے لگ کر کوکیں مار مار کر رویا کرتے تھے۔ وہ ہمیںسمجھا بجھا کر، پیار سے چمکار کرچپ کرانے کی لاکھ کوششیں کرتیں مگر ہم ان کی ا یک نہ سنتے ۔ اسی دوران ایک مقام وہ بھی آجاتا جب والدہ ا پنا جوتا اٹھا کر تڑاق سے ہمارے تھوبڑے پر جَڑ دیتیں۔ اس کا انجام یہ ہوتا کہ ہمیں بیک وقت انسانیت اور طمانیت کا احساس ہوتا اور ہم دو تین گھنٹے جمپر کی یاد سے غافل رہتے۔یہ سلسلہ کافی عرصے جاری رہا۔ ایک روز والدہ نے ہم سے کہا کہ جب آپ کالج میں پہنچ جائو گے تواس قابل ہو جائو گے کہ اکیلے ہی جمپر سے ملنے پنڈ دادنخان جا سکو۔ یہ سن کر ہمیں کچھ سکون ملا اور ہم نے اپنی تمام تر توجہ کالج میں داخلے پر مرکوز کر دی۔
بہر حال وہ دن بھی آگیا جب ہم ٹاٹ اسکول سے فارغ ہو ئے اور جمپر کے ہاں پہنچ گئے۔پنڈ دادنخان میں جمپر اپنے امی ابو کے ساتھ ایسے گھر میں رہتا تھا جس کا صحن 5فٹی دیوار کے ذریعے یوں منقسم تھا کہ اِدھر جمپر اور اس کے گھر والے جبکہ دیوار کے اس پار ہمسائے۔ ہم جمپر کے ہاں گئے تو گرمیوں کا موسم تھا۔سونے کے لئے صحن چھڑکائو کیا اور چارپائیاں بچھا دی گئیں۔ہم لوگ سو رہے تھے کہ اچانک رات کے 3بج کر 39منٹ پر دیوار کے پار سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔ماں کہہ رہی تھی ’’میدے! تُو انسان بن جا۔خبر دار جو تو نے آئندہ ایسی بات کی۔‘‘ میدہ کہتا ’’امی جی! میں ایسی بات آئندہ کیا ، ابھی کر دیتا ہوں کہ میں نے ایک شادی اور کرنی ہے ۔مجھے پینو بے حد پسند ہے ، میں اسے بیاہ کر لائوں گا۔ماں نے کہا کہ تیری بیوی نینو میں کیا برائی ہے جو تو پینو سے شادی رچانے کی سوچ رہا ہے ؟ میدے نے کہا کہ نینو سے زیادہ اچھی پینو ہے۔ دیکھنا وہ اس گھر کو کس طرح بنا سنوار کر رکھے گی اور میرے اشاروں میں چلے گی۔مجھے یقین ہے پینو میری زندگی کو قا بل رشک بنا دے گی۔ نینو تو خواہ مخواہ میں ہی بات بات پر لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔ماں کہتی کہ بیٹا! میری بات مان لے کہ عورت خواہ نینوہو یا پینو،اپنی بیوی بننے کے بعد سب ایک جیسی ہو جاتی ہیں،ان میں کشش جاتی رہتی ہے اور پھر مرد نئی دلہن لانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے ۔ وہ یہ حقیقت ماننے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں ہوتا کہ کوئی بھی خاتون خواہ کتنی ہی قابل رشک کیوں نہ ہو، بیوی بننے کے بعد شوہر کے لئے عام جھام ہی ہو جاتی ہے ۔ پھر پہلی بیوی کی آہیں رنگ لاتی ہیں اور شوہر نامدار نئی بیوی کو بھول بھال کرمعذرت کاڈھوبرا لے کر پہلی بیوی کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں۔
جمپر کے ہمسائے میںماں بیٹے کے مابین ہونے والے حقائق و دقائق کے تبادلے کی سماعت کے بعدہماری تو نیندیں ہی اڑ گئیں۔ یہی سوچتے سوچتے فجر ہو گئی کہ ہم نے جو تین شادیوں کا ارادہ کر رکھا ہے ، اس کا کیا بنے گا؟میدے کی ماں نے تو ’’پہلی بیوی ‘‘ کے حوالے سے خاصا ڈرادیا ہے ۔اگر ان کی باتیں سچی ہوئیں تو ہمارے ایک سے زائد شادیوں کے جبلی منصوبے کا کیا بنے گا؟ہم تو بہر حال ایک روز کے بعد گھر لوٹ آئے مگر جمپر پر اس کے ہمسائے میدے کی تمنائوں اور ارمانوں نے خاصا اثر ڈالا اور وہ بھی 3یا4شادیاں کرنے کے ارادے کو عزم و حوصلے کے ’’سیمنٹ‘‘ سے پختہ بنانے میں مصروف رہنے لگا۔
وقت گزرتا رہا، ہم نے بمشکل تمام ایک شادی کی اور سمندر پار چلے آئے۔ جمپرکے بارے میں سنا تھا کہ وہ ’’رن پٹھانی‘‘ میںاپنا 5اسٹار ہوٹل چلا رہا ہے۔10برس قبل 2008ء میں ہم رن پٹھانی گئے، نام نہاد پانچ ستارہ ہوٹل میں داخل ہوئے تو کیا دیکھا کہ ہوٹل کی لابی میں ا یک بڈھا صوفے پر دراز ہے ، بھانت بھانت کے ہر عمر کے لوگ اس کے گردمجمع لگائے ہوئے ہیں۔ وہ بڈھا فرما رہا ہے کہ یاد رکھنا! دوسری شادی ایسا بھوت ہے جو ہر مرد پر سوار ہو جاتا ہے ۔وہ انتہائی خوبصورت دلہن تلاش کر لیتا ہے اور اسے بیاہ کر لانے کے لئے بسے بسائے گھر، اپنے اور پرائے ، ہر کسی کی مخالفت مول لے لیتا ہے ۔ سب اسے منع کرتے ہیں مگر وہ کسی کی نہیں مانتا۔جب وہ گھر میں سوکنیں جمع کر لیتا ہے اور کچھ وقت گزر جاتا ہے تووہ کونے کھدروں میں گھس گھس کر روتا ، دھوتا دکھائی و سنائی دیتا ہے کہ میری توپہلی بیوی ہی اچھی تھی۔ دوسری خواہ مخواہ میں بیاہ لایا۔میرے ہم وطنو! یاد رکھنا کہ جس طرح دوسری شادی کر کے آدمی پچھتاتا ہے اور پہلی بیوی کی تعریفیں کرتا ہے بالکل اسی طرح عوام جمہوریت کے نام پر نئی حکومت قائم کر وانے کے بعد سڑکوں ، گلیوں، محلوں، قصبوں میں چلا چلا کر روتے ہیں ، دہائیاں دیتے ہیں کہ یہ ہم نے کیا ، پہلی حکومت ہی اچھی تھی۔ہم خواہ مخواہ میں ان لوگوں کے بہکاوے میں آگئے۔ ہم نے سنی ان سنی کی اور واپس چلے آئے۔پھر یوں ہوا کہ :
2008ء کے انتخابات نے حکومت عطا کی ،کچھ وقت گزرا، عوام سر پکڑ کر رونے لگے کہ پہلی حکومت اچھی تھی۔ پھر جمہوریت کے نام پر 2013ء میں حکومت سوار ہوئی تو عوام نے چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے ہائے ، اس سے تو پہلی حکومت ہی اچھی تھی۔ جمہوری تسلسل کا تیسرا دور شروع ہونے کو ہے ، جمپر ہمیں یاد آ رہا ہے ، جس کا فرمودہ ہے کہ بیوی اور حکومت میں ایک قدر مشترک ہے کہ نئی مل جائے تو پرانی کی قدر سمجھ آتی ہے ۔ نئی بیوی جب ظلم ڈھاتی ہے تو پرانی دل کو بھاتی ہے، اس کی یاد ستاتی ہے ۔جمپر کا فرمان اس وقت غلط اور بے بنیاد ثابت ہو سکتا ہے جب نئی نویلی دلہن یا حکومت پرانی سے اچھی نکل آئے اور یہ خوش قسمتی کے باعث ہی ہو سکتا ہے۔ آج ہمارا کلیجہ کانپ رہا ہے کیونکہ پھر نئی کے انتخاب کا وقت آ رہا ہے، کاش خوش قسمتی ہمارے قدم چومے، ’’بد قسمتی‘‘نابود ہو جائے ۔