کیا الیکشن ہماری مشکلات کا حل ہے؟
3 ماہ قبل اردن جانے کا اتفاق ہوا تھا وہاں برٹش کیمرج اسکولوں کا اجتماع تھا ۔جن کا تعلق پاکستان سمیت ایشن ممالک سے تھا جو ہر سال کسی نہ کسی ملک میں منعقد ہوتا ہے ۔پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیمرج والوں نے ممبر ملک اردن کا انتخاب کیا تھا ۔تین دن میں کیمرج اسکولوں کی کارکرگزاری اور آئندہ ہونے والے تعلیمی پیشرفت ودنیا کے تعلیمی میدان میں کیا ہورہا ہے اُس کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔مختلف اسکولوں سے آنے والے اساتذہ ،مینجمنٹ اور مالکان کی شرکت ہوتی ہے ۔اس کانفرنس میں ہمارے تعلیمی ادارے کے این اکیڈمی کراچی نے بھی اُس میں حصہ لیا تھا۔ راقم کو بھی شرکت کرنے کا موقع ملا ۔3 دن ان تعلیمی معلومات سے کافی تجربہ ہوا ۔سوچا اب اردن کی سیر اور سیاسی حالات کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔
قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں اردن اور پاکستان دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ بہترین بھائی چارے والے تعلقات ہیں ۔ایوب خان کے دُور میں شہزادہ حسن بن طلال جو شاہ حسین کے چھوٹے بھائی تھے ۔اُن کی شادی پاکستانی خاتون بیگم اکرام اللہ کی صاحبزادی سے ہوئی تھی اور آج وہ شہزادی ثروت اردن میں خوشگوار زندگی گزاررہی ہیں ۔یہی نہیں پاکستان نے اردن کے شہر عمان کا ائر پورٹ بھی تعمیر کیا تھا جو سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی کی سربراہی میں تعمیر ہوا تھا۔ سابق صدر ضیاء الحق نے جب وہ بریگیڈیئر تھے اردن کی فوج کو بھی ٹریننگ دی تھی ۔چند دن قیام کے دوران یہ محسوس ہوا کہ اردن کے عوام دیگر خلیجی ممالک کے برعکس بہت ہی سادہ لوح ہیں اور غریب ہوتے ہوئے بھی غریب پرور ہیں ۔جب فلسطینیوں پر برُے دن آئے تو اردن نے اُن کو پناہ دی ۔آ ج لاکھوں فلسطینی یہاں ابھی تک آباد ہیں ۔اس کے علاوہ جب عراق پر حملہ ہوا تو عراقی مہاجرین اردن میں پناہ لینے آئے۔ اُن کو بھی پناہ دی پھر مصر میں حسنی مبارک کا تختہ اُلٹا تو مصری مہاجرین آئے۔ وہ بھی ابھی تک آباد ہیں اور پھر آخر میں شام میں خونی انقلاب آیا تو لاکھوں شامی مہاجروں کو بھی اردن نے خوش آمدید کہا اور آج تک شام اوراردن کے بارڈر کھلے ہوئے ہیں ۔الغرض ایک کروڑ کی آبادی میں تقریباً 30لاکھ یعنی 10ملین میں سے 3ملین مہاجروں کی کفالت کا بوجھ اردن پر پڑا ہوا ہے ۔اردن میں کوئی تیل ،گیس کی پیداوار بھی نہیں ہے یہ جوچیزیں اُس کو اسرائیل سے مہنگے داموں خریدنا پڑتیں ہیں۔
اردن کے عوام ہمارے پاکستانی عوام کی طرح خاموشی سے برداشت کررہے تھے ۔اس دوران آئی ایم ایف سے بھی انہوں نے قرضے لے رکھے تھے ۔ہماری طرح یہاں بھی آئی ایم ایف عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھارہی تھی ۔چند ماہ قبل حکومت نے آئی ایم ایف سے 732ملین ڈالرز کا قرضہ 3سال کے لئے لیا تو حکومت سے ٹیکس بڑھانے کی شرائط عائد کیں ۔ حکومت نے غریبوں پر بھی انکم ٹیکس لگایا اور خوراک کی سبسڈی واپس لے لی ۔پھر کیا تھا اردن کی مختلف یونینوں نے مل کر حکومت پر زور ڈالا کہ وہ انکم ٹیکس واپس لے اور خوراک کی سبسڈی بحال کرے۔حکومت نے انکار کردیا اور مذاکرات ناکام ہوتے ہی ملک بھر میں ہڑتالیں شروع ہوگئیں ۔پولیس اورانتظامیہ نے عوام پر تشدد کیا ۔اس پر ہی بس نہیں کیا ۔عوام کو سبق سکھانے کیلئے سیلز ٹیکس 12فیصد سے 16فیصد کردیا اور بجلی کے نرخوں میں 19فیصد اضافہ کردیا اب کیا تھا پورا ملک ہڑتالوں ،تالہ بندی کی لپیٹ میں آگیا۔ٹرانسپورٹ سب بند ہوگئے ۔حکومت مفلوج ہوگئی شاہ عبداللہ نے وزیراعظم پر دبائو ڈالا کہ ٹیکس واپس لیں ۔وزیر اعظم نے انکار کردیا کیونکہ وہ آئی ایم ایف سے معاہد ہ کرچکا تھا ۔بادشاہ کے سامنے استعفیٰ دے دیا۔ عوام کی رائے سے اُن سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا پھر نئے وزیراعظم کوجو اسی کابینہ کے وزیر اوراکنامسٹ تھے حکومت بنانے کی دعوت دی وہ نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے مگر عوام نے شخصی تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا اور مطالبات وہی رکھے کہ تما م ٹیکس واپس لینے تک ہڑتالیں جاری رہیں گی ۔اُن کا نعرہ تھا عوام ATMکی مشینیں نہیں ہیں نہ آٹا پیسنے کی مشینیں ہیں ۔40سال سے وہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔اب وہ مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کرینگے۔ انہوں نے عوام کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے قبیلوں کے سرداروں کو بھی ساتھ ملالیا ۔3ماہ پیشر میرے مشاہدے میں ہرگز یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ سیدھے سادھے بھولے عوام جو اپنے بادشاہ سے محبت کے دعویدار تھے جس کی بدولت اردن میں نئے نئے کالج ،اسکول یونیورسٹیاںجو پورے ہمسایہ ممالک میں سب سے زیادہ ممتاز سمجھی جاتی ہیں اور مفت علاج ومعالجہ کی سہولتیں ہوتے ہوئے اس قدر شدت پسند ہوجائیں گے ۔اُن سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی تھی مگر جب پانی سر سے اونچا ہوجائے تو پھر ایسا ہی ردعمل ہوتا ہے جو آج اردن میں ہورہا ہے ۔نئے وزیراعظم لاچار پارلیمنٹ میں بیٹھے عوام کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں کہ آئندہ چند روز میں کیا ہوگا کسی کو کچھ پتہ نہیں آیا۔فی الحال عوام سڑکوں پر آچکے ہیں انہوں نے ماہ رمضان کا بھی خیال نہیں کیا ۔
میں یہ سوچ کر تعجب کررہاہوں ہمارے ملک میں گزشتہ 40سال سے یہی آئی ایم ایف کے ستائے عوام کرپٹ سیاستدانوں اور کرپٹ بیوروکریٹس کے کھربوں ڈالرز کی کرپشن، بجلی ،گیس کی مہنگائی، پینے کے صاف پانی کی ناپیدی گرمیوں میں زبردست لوڈ شیڈنگ، دوبارہ بھتوں کی پرچیاں ،اغوا برائے تاوان سب کے ہوتے ہوئے ہم کیسے انسان ہیں جو آنے والے الیکشن کی تیاریوں میں مشغول ہونے جارہے ہیں ۔کیسے سب کچھ بھلا کر پھر انہی لیٹروں جاگیرداروں ،وڈیروں کے پرانے جالوں میں نئی نئی چھتریوں کے سائے میں پھنسنے جارہے ہیں ۔کوئی ایک بھی تویہ نہیں کہتاکہ جج صاحبان الیکشن سے پہلے ان کا احتساب کئے بغیر کاغذوں کا پیٹ بھرنے سے کیا یہ وارداتی سیاست دان الیکشن کے بعد باز آجائیں گے ہرگز نہیں؟خدارا صرف اردن کے عوام سے ہی سبق سیکھیں جنہیں کل ہم نے سکھایا تھا۔