Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی والوں کے حقوق لوٹا دو

***خلیل احمد نینی تال والا***
گزشتہ دنوں ہمارے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جو سابق وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے صاحبزادے ہیں ،سند ھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جو ش جذبات میں یہ کہہ گئے کہ میں الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر لعنت  بھیجتا ہوں ۔انہوں نے ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی کے اراکین کو بھی لتاڑاکہ وہ اپنے قائد کی غلامی میں ہاں میں ہاں  ملاکر صوبے کویر غمال بناکر رکھتے تھے اور 10سال سے دہشتگردی پھیلانے میں مصروف تھے ۔ہم نے اس صوبے میں امن وامان پیدا کرکے عوام کی خدمت کی ہے۔خصوصاً کراچی کے اُردو بولنے والوں کو سکون کی نیند فراہم کردی ہے اور آئندہ عوام ان کو مسترد کردینگے وغیرہ وغیرہ ۔
سب سے پہلے تو میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو یاد دلادوں کہ سب سے زیادہ دہشت لیاری گینگ وار پیپلز امن کمیٹی  نے ،جن کی سرپرستی خود پی پی پی کی حکومت کررہی تھی پھیلا رکھی تھی ۔ایم کیو ایم تنہا بھتہ اور دہشتگردی میں ملوث نہیں تھی۔ اے ا ین پی ، پختون اتحاد ،بلوچ اتحاد ،سنی تحریک سب ہی مل کر کراچی کو یر غمال بنائے ہوئے تھے۔صرف رینجر ز اور فوج کے مشترکہ ایکشن سے ان دہشتگردوں کا صفایا ہوا ۔  برائے مہربانی خود کریڈٹ نہ لیں ،قوم کھلی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھتی رہی ۔گاڑیاں ،موٹر سائیکلیں  ،موبائل ،اغوا برائے تاوان ،دن دیہاڑے ڈاکہ ،گھیرائو جلائو میں سب کے سب ملوث تھے ۔
رہا مسئلہ الگ صوبے کا مطالبہ تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی خودمختار انتظامی یونٹ کے ساتھ ملک کا دارالخلافہ بھی تھا۔قیام پاکستان کے وقت متروکہ سندھ میں 45نشستیں ہندوارکان کیلئے اور 55نشستیں سندھی  بولنے والوں کی ہوتی تھیں۔ جب ہندو پاکستان سے  ہندچلے گئے تو اصولاً اُس متروکہ سندھ کی 45نشستیں اُردو بولنے والے یعنی  ہند سے مسلمان آنے والوں کی ملکیت ہونی چاہئے تھیں جبکہ اُس وقت کراچی سمیت سندھ کی کل آبادی 3لاکھ تھی ۔آج ڈھائی 3کروڑ کی آبادی میں بھی 45نشستیں نہیں دی جار ہیں ۔کراچی کی آبادی کو بھی آدھی سے بھی کم دکھا کر اُسکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔اگر  ہند سے مہاجرین نہ آتے تو آج بھی سندھی وڈیرے ،جاگیر دار تمام کے تمام ہندو سود خور مہاجنوں کے قرض دار ہوتے اور اُن کی زمینیں بھی اُن کے پاس گروی پڑی ہوتیں ۔ان کو مہاجرین کا شکر گزار ہونا چاہیے اور متروکہ املاک جو ہندو چھوڑ کر گئے تھے مہاجروں سے نہیں چھیننی چاہیے تھیں۔
اردو اور دیگر زبانیں بولنے والے آج سندھی بولنے والوں سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر مردم شماری سے ان کی تعداد آدھی کرکے اُنکے حصے کی سیٹیں اور ملازمتوں پر حقیقت میں قبضہ کرکے اُن کو اقلیت میں ظاہر کیا جارہا ہے۔  نادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 95لاکھ نادرا کے جاری کردہ شناختی کارڈ کا ریکارڈ اور بقایا پورے سندھ میں ایک کروڑ 5لاکھ شناختی کارڈ جاری ہوئے ہیں گویا 55فیصد پورے متروکہ سندھ کی ووٹروں کی تعدار ہے اور صرف کراچی کی 45فیصد ووٹروں کی تعدار ہوچکی ہے جس کو مردم شماری کی آڑ میں کم کرکے مہاجروں کے حقوق غضب کررکھے ہیں تو وہ کیوں نہ متروکہ سندھ کا مطالبہ کرکے اپنے حقوق واپس لیں ۔
آج سندھی بولنے والے پورے سندھ بشمول کراچی ،حیدرآباد میں 10صنعتکار ،بنکرز ،انشورنس ملکان نہیں ملتے جبکہ 75فیصد صنعتی ادارے بینک ،تجارتی مارکیٹیں اکثریت اُردو بولنے والوں سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ بیوروکریسی ،پولیس اور دوسرے حکومتی اداروں میں اُردو بولنے والوں کو کوٹہ سسٹم کے نام پر باہر کیا جاچکا ہے ۔رہی سہی کسر کے ایم سی ،کے ڈی اے ،واٹر بورڈ ،کے ای ایس سی جیسے ادارے حکومت سندھ نے کنٹرول کرکے اپنے من مانی کررکھی ہیں ۔بلدیاتی میئر صرف نام کا رہ گیا ہے کراچی کے مزید حصے بخرے کرکے ملیرڈیولپمنٹ اتھارٹی (MDA)لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (LDA)بناکر بقایا زمینوں پر قبضہ کیا جاچکا ہے ۔
آخر میں صوبوں کے مطالبہ پر آتاہوں۔ دنیا کے 202ممالک میں پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس میں صوبے کے نام پر عوام کو محکوم بنارکھا ہے ۔سندھی سوچ سے باہر آکر مسلمان بن کر سوچیں ۔ عوام کی آسانیاں پیداکرنے کا نام صوبہ بندی ہیں ۔جس طرح یونین کونسلیں ،ڈسٹرکٹ کونسلیں بنائی جاتی ہیں تاکہ عوام کی نمائندگی اور عوام کوآسانیاں ہوں ،اسی طرح ڈویژن اور صوبے بنائے جاتے ہیں ۔اگر صوبے بنانے والوں پر لعنت ہوتی تو آج دنیا کے 201ممالک کے صوبے بنانے والوں پر بھی لعنت ہوتی ۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے 14صوبے  اور ہندوستان کے 13صوبے تھے ۔آج پاکستان کے 4اور ہندوستان کے 39صوبے کیوں بن چکے ہیں۔ مراد علی شاہ! آپ جلاوطنی میں کئی ممالک میں رہے ہیں۔  میں ان کا نام نہیں لیتا کیونکہ آپ کے والد مرحوم بھی پرویزمشرف کے مارشل لاء کے ڈر سے دیار غیر میں جاکر روپوش ہوگئے تھے ۔آپ کی اطلاع کیلئے سب سے بڑے صنعتی ممالک جس میں جاپان شامل ہے ،وہاں کی آبادی صرف 17کروڑ ہے اور اُسکے 47صوبے ہیں۔سوئٹزرلینڈ کی آبادی 70لاکھ ہے۔ اُس کے 26کینٹین (صوبے ) ہیں۔ سنگاپور صرف 18لاکھ کی آبادی اور 16یونٹ یعنی صوبے ،یوکے کی آبادی 65ملین ہے۔ 48صوبے نما کائونٹی ہیں ۔امریکہ 32کروڑ کی آبادی اور 50ریاستیں یعنی صوبے ہیں ۔یورپی ملک فرانس میں  66ملین کی آبادی پر 18صوبے ہیں ۔ہمارے پڑوسی مسلمان ملک ایران 8کروڑ کی آبادی اور 31 صوبے ہیں ۔ترکی کی آبادی 88ملین اور 81 صوبے ہیں ۔سعودی عرب 33ملین کی آبادی اور 13صوبے ہیں ۔دنیا کی ایک تہائی زمین والا ملک آسٹریلیا 24ملین آبادی کے بھی 6صوبے ہیں ۔ایک چھوٹا ترین ملک آئس لینڈ جس کی آبادی لیاقت آباد سے بھی کم یعنی 4لاکھ سے بھی کم ہے، اُس کی 74میونسپلٹی ہیں ۔غریب ترین ملک افغانستان کی آبادی 3کروڑ ہے اور 33 صوبے ہیں۔ کیا ان سب پر بھی آپ لعنت بھیجیں گے؟ جن کی ترقی کے سامنے آج ہم خود تنزلی کی طرف برق رفتاری سے بڑھ رہے ہیں ،  اس سے ثابت ہوا کہ صوبے عوام کی بھلائی کے لئے ہوتے ہیں۔ 
جناب وزیراعلیٰ!بتائیں کہ وفاق سے  6000کروڑ سندھ کو ملے ہیں ۔کراچی پر کیا خرچ کیا ہے؟بس صرف 10گرین بسیں؟لعنت  بھیجیں ان بسوں پر ۔سندھ کی ترقی کونسی ہوئی ہے جس کے بناء پر آپ آئندہ عوام میں جائیں گے۔ خود کا محاسبہ کرنے کیلئے تیار رہیں یا پھر آسمان کی طرف منہ کرکے تھوکتے ہی رہیں گے؟ویسے بھی آپ کے اقتدار کا بھی چل چلائو ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس چھوڑ کر اچھی مثال قائم کی۔کاش اس حقیقت کو بھی سمجھتے کہ اصل ترقی عوام کی حقیقی خدمت ہے نہ کہ اپنی ذاتی انا کی ۔آج نہیں تو کل عوام اپنے حقوق کیلئے میدان میں ضرور نکلیں گے ۔آج تو صرف آپ کی افطار پارٹی کا بائیکاٹ ہوا ہے۔ 
 

شیئر: