عید الفطر ، اظہارتشکر اور خوشی کا دن
جس دن پل صراط سے گزرجائیں وہ’ ’’عید‘ ‘کا دن ہے،جس دن جنت میں داخل کئے جائیں گے وہ ’’عید‘ ‘کا دن ہے
* * * محب اللہ قاسمی۔ نئی دہلی* * *
مہینہ’’ شوال‘‘ کی پہلی تاریخ کو مسلمان’ ’عیدالفطر‘‘ مناتے ہیں۔یہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارتشکر کے طور پر خوشی منانے کا دن ہے۔ یہ اسلامی تیوہار ہے جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقعہ ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔
خوشی کا دن:
صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اِس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔اس دن کے بارے میں نبی کریم کا ارشاد ہے:
’’ہر قوم کے لئے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘(مسلم)۔
اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن 5 ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر کا بھی ہے۔
اسی بنا پر علمائے کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاںمنانا دین کی علامات (شعائردین) میںسے ہے۔ عید کے دن خوشی کے اس موقع کو فراموش کرنا، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح مناسب نہیں۔اہل ایمان کا باہمی رشتہ اخوت پر مبنی ہوتاہے ، جوکلمہ لاالہ الا اللہ سے قائم ہوتی ہے لہذا عید سعید کے اس موقع پر کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو تنہا نہ چھوڑ دیں بلکہ اس کے احوال دریافت کریں،حتی الامکان اپنے تعاون سے اس کی ضرورت پوری کریں اسی لئے زکوٰۃ اور صدقۂ فطرکا حکم دیا گیاہے تاکہ نادار بھی عید کی خوشی میں برابر کا شریک ہوسکیں اور کوئی مسلمان عید کے دن محروم نہ ہو۔
بغض وعنادسے پرہیز:
اسلام میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے قطع تعلق کی یا دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ،ٹھیک اسی طرح اپنے دل کی صفائی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملہ میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم کا ارشادہے :
’’حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔‘‘ (بخاری)۔
اس لئے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے ملنا ، خاص طور سے والدین سے ملاقات کرنا اور ان کیلئے عید کے فرحت وسرور کا سامان مہیا کرنا لازم ہے۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کریتی ہے بلکہ اس کیلئے کشادگی ٔ رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔نبی کریم کا ارشادہے:’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔
عید کی مبارکباد:
عیدگاہ میں جن لوگوں سے ملاقات ہو اُن کو مبارکباد پیش کرنے کا بھی اہتمام کریں۔ جیسا کہ صحابہ کرام کامعمول تھا ۔جب وہ عید کے دن آپس میں ملتے تو کہتے :
تقبل اللہ منا ومنک (مسنداحمد)۔
اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی (نیک کوششوںکو) قبول فرمائے۔
عید کی مبارک باد کا تبادلہ باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے ۔ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں۔مثلاًنیک کام کرتے ہوئے قدم مختلف راہوں پرپڑیں،ساتھ ہی زیادہ لوگوںسے ملنے کا موقع ملے اور اظہار مبارک باد کا عمل انجام دیا جائے۔
عید الفطر کی حقیقی خوشی :
عید کی خوشی کن لوگوں کے لئے ہے؟کیا اُن کے لئے جنھوںنے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کیلئے کوئی لمحہ نہ نکال سکے بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟نہیں ! بلکہ اِس دن کی خوشی کے مستحق وہ لوگ ہیں ، جنھوںنے رمضان کے روزے رکھے،قیام اللیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لئے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعیٔ مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم کا ارشاد ہے:
روزہ دار کے لئے 2خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ)۔
جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نیکوکاربندوں کے اجرکو ضائع نہیں کرتا بلکہ انھیں پورا پورا اجر عطا کرتاہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نیکوکار کے اجرکوضائع نہیں کرتا۔‘‘(توبہ120)۔
عید کو وعید نہ بنائیں:
یہ عبادت واطاعت درحقیقت اظہارتشکرہے جس پر اظہار مسرت ہی’ ’عید‘‘ ہے اسی لئے عید کے دن بھی ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ،محض جشن اور خوشی کے نام پر انجام دیناشکرگزاری نہیں بلکہ ناشکری ہے،جو عذاب الٰہی اور وعیدکا باعث ہے نہ کہ عید کا،اس لئے ہم اس عید الفطر کے موقع پر یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم نے ماہ رمضان کو عبادت واطاعت میں گزاراہے اسی طرح سال کے بقیہ ماہ بھی گزاریں گے تاکہ رمضان المبارک کے عمل کاتربیتی عمل شمار کیاجائے نہ کہ محض خانہ پوری ،اس لئے آنے والا ہر مہینہ ہمارے لئے امتحان کا ہوگا،پھر یہی جذبۂ اطاعت و شکرگزاری ہمارے لئے ہر روز عید کا سبب ہوگا۔جیسا کہ سیدنا انس بن مالک ؓ بیان فرماتے ہیں:
’’مومن پر گزرنے والا ہر دن جس میں اس سے گناہ سرزد نہ ہووہ ’’عید‘ ‘کا دن ہے،وہ دن جب وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہو’ ’عید‘‘ کا دن ہے ،جس دن قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوکرپل صراط سے گزرجائے وہ’ ’’عید‘ ‘کا دن ہے،وہ دن جب وہ جنت میں داخل کیاجائے ’’عید‘ ‘کا دن ہے اور وہ دن جب وہ اپنے رب کا دیدار کرے ’’عید‘ ‘ کا دن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوںکو قبول فرمائے اور ہمیں راہ راست کی توفیق بخشے۔آمین۔