Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قافلے کا سفر جاری

 
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین
عرب دنیا کی منتخب شخصیتوں کے نمائندہ صحافی وقتا ً فوقتاً ایسے افکار و خیالات پیش کرتے رہتے ہیں جن سے عرب دنیا کے تلخ ماحول کی بو آتی ہے۔
گزشتہ صدی کے نصف ثانی کے آغاز میں عرب دنیا نے اتحاد کے خواب دیکھے۔ یہ خواب جلد ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ خواب دیکھنے والے اقتدار کے حصول کے چکر میں ایک دوسرے سے لڑ بیٹھے۔ انہوںنے نہ اتحاد کے نعروں کی پروا کی اور نہ اتفاق رائے کی ضرورت کا احساس کیا۔ دوسری جانب روزی روٹی کے نعرے لگائے گئے۔ یہ نعرے بھی وقت کے ساتھ پس پردہ چلے گئے۔
عربوں میں تفرقہ و تقسیم کا ماحول اپنی جگہ پر قائم تھا۔ بعض ممالک جن میں سعودی عرب سرفہرست تھا اپنے اصولوں سے چمٹے رہے۔ یہ ممالک جن کی تعداد کم تھی مختلف موضوعات اور مسائل پر یکجہتی کے اظہار کی پالیسی پر گامزن رہے۔ انہوں نے اس حوالے سے سیاسی شیطانوں کی سازشیں جھیلیں ۔ ذرائع ابلاغ کے وظیفہ خوارو ںکے طعنے سہے اور مشترکہ عرب جدوجہد کے نعرے بلند کرنے والوں کی صف میں کھڑے ہوکر اپنے خلاف زبان چلانے والوں کی لن ترانیاں سہیں۔
سعودی عرب اور اسکے ساتھ اعتدال پسند ممالک نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ بہت ساری رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ بائیں بازو اور دائیں بازو کی نمائندہ طاقتوں کے طعنے جھیلے۔ رفتہ رفتہ ماحول بدلہ ۔ بعض لوگوں کو اب یہ یقین ہوچلا ہے کہ اکثر عرب ممالک دیگر ممالک کے دھن دولت میں اپنے حق کے حریصانہ خوابوں سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کے دھن کو اپنا سمجھنے والا رویہ بدل گیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ تبدیلی تو آئی ہے لیکن کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جو پرانی ذہنیت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی ناکامی کے اسباب خلیجی ممالک کے سر ڈال دیتے ہیں اوراپنی غلط پالیسیوں کے سنگین نتائج اعتدال پسند ممالک کے سر منڈ دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس قسم کی ذہنیت اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہیگی۔ امید ہے کہ سوشل میڈیا کے انقلاب کے دور میں لوگ اس قسم کے تصورات اور افکار و خیالات پیش کرنے والوں کے طوفان میں نہیں بہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: