Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج 10شوال کونئے سعودی عرب کا تاریخ ساز واقعہ ہوگا

ڈاکٹر فوزیہ البکر ۔ الجزیرہ
آج10شوال 1439ھ ،مطابق 24جون سے مملکت میں سعودی اور غیر سعودی خواتین گاڑیاں چلانے کی مجاز ہونگی۔انہیں اپنے کسی رشتے دار یا ڈرائیور کی مدد کے بغیر گاڑی چلانے کا باقاعدہ حق حاصل ہوگا۔ اس واقعہ کا تصور ذہنی اور جذباتی حیرت و خوشی کا احساس دلا رہا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر مجھے گاڑی چلانی پڑ جائے تو کیا میں اس کا فیصلہ برضا ور غبت کرسکونگی؟ورجینا وولف اپنی خوبصور ت کتاب (وہ کمرہ جو صرف خاتون کیلئے ہے) میں تحریر کرتی ہیں کہ ”میں نے فلاں صاحب کے نئے ناول کو ہاتھ میں لیکر سوچا کہ کیا یہ واقعی فرحت بخش ناول ہے، کیا میں ایک بار پھر کسی مرد مصنف کو پڑھونگی؟ مصنف نے دوٹوک اندازمیں صاف ستھرے مکالمے سے اپنے نئے ناول کا آغاز کیا۔ یہ فکر کی آزادی اور خود اعتمادی کی علامت ثابت ہوا۔ اپنے آپ کی بابت غور و خوض کرتے ہوئے اور اعلیٰ درجے کی ثقافت سے آراستہ آزاد عقل کا استعمال کرتے ہوئے یہ سب کچھ بھلا لگ رہا تھا۔ عقل ایسی طاقت ہے جسے کوئی مایوس نہیں کرتا۔ عقل ایسی صلاحیت ہے جسے کوئی آگے بڑھنے سے نہیں روک پاتا ۔ مرد کو یہ ساری آزادی پیدائش کے لمحے سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ پلتی بڑھتی اور پھلتی رہتی ہے۔“ذرا سوچئے کہ اگر پیدائش کے پہلے لمحے سے انسانی عقل پر پابندی نہ لگائی جائے تو وہ کسی قدر اچھوتے کارنامے انجام دیگی۔ یہ اصول ہم اپنے معاشروں میں خواتین پر بھی لاگو کریں تو خواتین کے حوالے سے ہمیں اچھوتے پن کے شاہکار دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملیں گے۔ 
سعودی خواتین زندگی بھر فیصلے نہ کرنے کی پابند رہی ہیں۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے کسی نہ کسی کا سہارا درکار رہا ہے۔ اب جبکہ انہیں گاڑی چلانے کا اختیار حاصل ہوگا تو خواتین کی بابت معاشرے میں پائے جانے والے مسلمہ اصول ٹوٹیں گے۔ اس حوالے سے تبدیلیاں آئیں گی۔آج سے بالآخر سعودی خواتین اس علاقے میں قدم رکھ سکیں گی جو ان کیلئے اب تک ممنوعہ علاقہ مانا جاتا تھا۔انہیں اسکی بابت سوچنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب وہ نہ صرف یہ کہ گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ از خود کرسکیں گی،وہ اپنی گاڑی لیکر خود اسے چلانے کی مجاز ہونگی۔ خواتین کو فیصلے کا اختیار ملنا زندگی اور موت کے درمیان فرق جیسا معاملہ کہا جاسکتا ہے۔ 
گزشتہ اتوار کو امیرہ نورہ یونیورسٹی کے تھیٹرمیں اسٹیج ڈرامہ سجایا گیا تھا ۔ وہاں معروف اوپیرا گلوکارہ ہبہ القواس کا پروگرام ہورہا تھا ۔ میں یہ منظر دیکھ حیرت و استعجاب کے عالم میں پڑگئی۔ مجھے یہ دیکھ کرعجیب سا لگا کہ کیا واقعی ہم لوگ حیرتناک تیزی کے ساتھ اس قدر بدل جائیں گے؟ فنکاروں اور فن کے شیدائیوں کا عظیم الشان اجتماع دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ہمارے اطراف سعودی لڑکے ، لڑکیاں پروگرام کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ بھی تھے جو ہمیں نظر آرہے تھے ،وہ لڑکیاں بھی تھیں جو پس پردہ سارے انتظامات دیکھ رہی تھیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس پروگرام کی کوکھ سے سیکڑوں پروگرام جنم لیں گے۔ ان میں موسیقی، تجریدی آرٹ، ثقافت ، تربیت وغیرہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے پروگرام ہونگے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے کارکن طرح طرح کے ورکشاپ لگائیں گے۔ ہر جگہ سعودی لڑکے اور لڑکیاں ان میں شریک ہونگے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ نیا سعودی عرب جو خارجی دنیا کا موضوعِ سخن بنا ہوا ہے وہ اپنے مردو خواتین کے کارناموں کے توسط سے زندگی کے ہر شعبے میں بولتا ، گاتا نظر آئے گا۔
6نومبر 1990ءکو سعودی معاشرے کی منتخب خواتین نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ مظاہرہ کرکے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا مطالبہ کریں۔ یہ مطالبہ سیاسی سے کہیں زیادہ دنیا بھر کی خواتین کی طرح سعودی خواتین کی بنیادی ضرورت کی تکمیل کا مطالبہ تھا۔ دنیا کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی خاتون پر ڈرائیونگ کے حوالے سے پابندی نہیں تھی۔ عجیب بات ہے کہ جب سعودی معاشرے کی منتخب خواتین مذکورہ مطالبے کیلئے سڑک پر آئیں تو اس سے یہاں کے مختلف حلقوں میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی تھی۔ 
آج خواتین کی زندگی میں غیر معمولی دن ثابت ہوگا۔ نہ جانے کب سے خواتین اسکے انتظار میں آنکھیں لگائے ہوئے تھیں۔تبدیلی کے رہنما بہادر شہ سوار نوجوان میرِ کارواں محمد بن سلمان، ہمارے قائد اعلیٰ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر قیادت آگے بڑھے۔ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ تبدیلی کا در کدھر سے کھلے گا،ہمیں کس سمت سے کس جہت میں جانا ہے۔ انہوں نے ہمیں سڑکوں، اسکولوں ، بازاروں ، اسپتالوں ، تجارتی مراکز ، ہوائی اڈوں ، بندرگاہوں اور بری سرحدی چوکیوں کا رخ کرنے کا راستہ دکھایا ۔ مملکت بھر میں عظیم الشان ہلچل ہے ۔ برسہا برس سے ذہن و دل پر اَٹے ہوئے گردو غبار صاف کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ہر سعودی خاتون ڈرائیونگ کا حق ملنے پر مبارکباد کی حقدار ہے۔ یہ احساس انمول ہوگا کہ آپ اپنا فیصلہ خود کررہی ہیں اور یہ احساس اور زیادہ فرحت بخش ثابت ہوگا کہ آپ اپنا فیصلہ خود ہی نافذ کررہی ہیں۔ اس سے ملک و قوم خود اپنی شخصیت اور خاندان کے حوالے سے ذمہ داریوں کا کوہ گراں بھی آپ کے سر پر آئے گا ۔اسے احسن شکل میں انجام دینا بھی آپکا فرض ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: