Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بعض ڈرائیوروں کی ناشائستہ حرکتیں اور بدزبانی

محمد الحسانی ۔ عکاظ
ایک دوست اپنے دوست سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ جب بعض مالدار گھرانے ترقی یافتہ یورپی یا ایشیائی ممالک کی سیر و سیاحت سے واپس آتے ہیں تو وہاں کے شاندار مناظر کا تذکرہ انتہائی پسندیدگی کیساتھ کرتے ہیں۔ان میں سے کہنے والے کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں صفائی ستھرائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی سڑکیں صاف ، بازار صاف ، عوامی پارک صاف ، ساحل صاف اور انکے سارے معاملات سوئس گھڑیوں کی طرح انتہائی منظم اور مربوط ہوتے ہیں۔ 
اس قسم کے اچھے تاثرات کا اظہار عام طور پر سعودی سیاح اُس وقت کرتے ہیں جب وہ اپنے یہاں کی حالت زار دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ وہ بیحد افسوس کیساتھ خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری بیشتر سڑکیں اور ساحل اور عوامی پارک اعلیٰ تمدن و تہذیب کے مناظر کیوں نہیں پیش کرتے حالانکہ ہمارا مذہب صفائی کی تعلیم دیتا ہے۔ راستوں سے اذیت ناک اشیاءہٹانے کا درس دیتا ہے اور اسے ایمان کا حصہ بھی بتائے ہوئے ہے۔
مشرق و مغرب کے شہروں کی صفائی اور وہاں تہذیب و تمدن کے شاندار مظاہر پر پسندیدگی ظاہر کرنے والے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کرتے کہ مذکورہ ممالک کے شہری جب پارک یا ساحل سمندر پر جاتے ہیں تو کیا وہ بچا ہوا کھانا وہیں چھوڑ کر چلے آتے ہیں اور پھر اس سے بدبو پھوٹنے لگتی ہے۔ کیا انہوں نے وہاں کبھی کسی گھر کے سامنے اس ملک کے کسی باسی کو صرف اسلئے کچرا پھینکتے ہوئے دیکھا کیونکہ کچرے کا ڈبہ انکے گھر سے قدرے فاصلے پر تھا۔ کیاانہوں نے کبھی کسی یورپی یا ایشیائی ملک کے باشندے کو جوس کا ڈبہ یا کسی مشروب کی بوتل سڑک پر پھینکتے ہوئے نوٹ کیا؟ مشکل یہ ہے کہ ہمارے بھائی باہر جاتے ہیں تو وہاں تہذیب تمدن کے خوبصورت مناظر سے بے شک متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ کبھی یہ سوچنے سمجھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ اس قسم کے مناظر کو برقرار رکھنے میں اُس ملک کے باشندوں کا کردار کیا ہے؟
میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ اچانک اسکی گاڑی کے اگلے حصے پر ایک خالی ڈبہ اچھلتا ہوا نظر آیا۔ فوری طورپر یہ واضح ہوگیا کہ وہ ڈبہ عقب سے آنے والی گاڑی کے ڈرائیورنے ہوا میں اچھالا تھا۔ سگنل پر دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ میرے دوست نے ان صاحب سے کہا کہ بھائی آپ نے خالی ڈبہ سڑک پر پھینک کر اچھا نہیں کیا۔ یہ سن کر ان صاحب نے جواب دیا کہ کیا سڑک آپ کے ابا جان کی ملکیت ہے؟ میرے دوست نے یہ سن کر گاڑی کا شیشہ چڑھا دیا ۔کہنے لگا کہ میں اتر کر اسے سبق سکھا سکتا تھا لیکن میں نے سوچا کہ اگر اس انسان میں ذرا برابر انسانیت اور تہذیب ہوتی تو وہ ایسی حرکت نہ کرتا۔ میری گفتگو سے دوسری قسم کی غلاظت کی چاند ماری شروع ہوجاتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: