”کم سے کم آنکھ میں کاجل نہ لگایا ہوتا“
شہزاد اعظم
آج میرے لئے عجب دن تھاکیونکہ میں ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوا تھا جس کا ادراک زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ غزل نے کہا کہ میری خالہ نے مجھے اور امی جان کو لندن بلایا ہے،ہم 40روز کے لئے جا رہے ہیں۔ یہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے دل نے دھڑکنے سے انکار کر دیا ہو، جیسے احساسات نے محسوس کرنا ترک کر دیا ہو، جیسے جذبات برانگیختگی سے ناآشنا ہوگئے ہوں، جیسے قوتِ ناطقہ مفلوج ہوگئی ہو، جیسے آنکھیں جھپکنا بھول چکی ہوں۔میں غزل سے کوئی سوال کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں، میں آپ کو ان 40دنوں کے لئے 40کام دے کر جاﺅں گی۔ روزانہ آپ اس گھر میں آئیں گے اور ہدایات کے مطابق یہاں وقت گزاریں گے اور اس کے بعد دفتر کے لئے رووانہ ہوں گے۔ وعدہ کیجئے ایسا ہی ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا حنائی ہاتھ میری جانب بڑھا دیا۔ میں نے اس سے مصافحہ کیا اور وعدہ وفا کرنے کا یقین دلا دیا۔ اس کے سوا میں کر تا بھی تو کیا کرتا۔
میں اگلے روز غزل اور اس کی والدہ کو لندن جانے کے لئے ایئر پورٹ چھوڑنے گیا۔وہ عبائے میں مستور تھی، آواز سے تو ادراک نہیں ہو پا رہا تھا مگر اس کی آنکھیں دلی کیفیات کی چغلی کھا رہی تھیں کیونکہ ان کی سفیدی میں سرخی عود آئی تھی اور کاجل پھیلنے لگا تھا۔ اس موقع پر والدہ نے کہا کہ اگر اپنے احساسات کو لگام دینا تمہارے بس میں نہیں تھا تو کم سے کم آنکھ میں کاجل نہ لگایا ہوتا۔ میں ایئر پورٹ پر غزل کے ساتھ اس حد تک گیا جہاں تک جا سکتا تھابالآخر وہ مقام بھی آگیا جس سے آگے صرف مسافر ہی جا سکتے تھے۔ میں وہاں ٹھہر گیا۔ غزل ایک کونے میں جا کھڑی ہوئی اور چپ چاپ میری طرف دیکھتی رہی۔ میں نے اشارے سے کہا کہ امی جان آگے جا رہی ہیں، ان کے ساتھ ہی رہو ناں۔ مگر وہ وہیں کھڑی رہی اور پھر اچانک جب اس نے دیکھا کہ دائیں بائیں کوئی مرد موجود نہیں تو اس نے نقاب ہٹاکر اس کی اوٹ سے اپنا چہرہ میری جانب کیا ۔ اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اس نے ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہااورلاﺅنج کے اندر چلی گئی۔
میں واپس مُڑا اور قدم اٹھاتے ہی میرے دل نے دھاڑیں مار مار کر دھڑکنا شروع کر دیا۔ ذہن نے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جب آپ کے لئے 40روزہ انتظار شروع ہوا ہے۔وہ ہفتہ کا دن تھا، دفتر سے میری چھٹی تھی۔ میں ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو خیال آیا کہ مجھے اپنی زندگی کے 960گھنٹے غزل کے بغیر گزارنے ہیں۔ بہتر ہے کہ میں پیدل ہی گھر چلا جاﺅں، اس طرح انتظار کے کم از کم 4گھنٹے تو کم ہوجائیں گے۔ بہر حال میں بوجھل قدموں، چکنا چور کر دینے انتظارکے عزم اور عارضی تنہائی کا مہلک احساس لئے قدم در قدم غزل کے گھر کی جانب بڑھتا گیا۔ شام ڈھلنے کے بعد میں گھر پہنچ گیا۔ فلیٹ کا دروازہ کھولا،آج پہلا دن تھا جب اس گھر میں مجھے غزل کی آواز سنائی نہیں دی تھی تاہم میرے کانوں میں اس کی آواز کی کھنک ضرور گونج رہی تھی”شہزاد!اپنا خیال رکھنااور مجھے خیال میں رکھنا،جب کبھی تنہائی کا احساس شدید ہو تو سوچ لینا کہ اگر شاعر بے چین ہے تو بے تاب غزل ہے ۔اگر شاعر بسمل ہے تو ماہی¿ بے آب غزل ہے،اگر شاعر کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی ہے تو بے خواب غزل ہے ، اگر شاعر کے سوال انگنت ہیں تو اس کے تمام سوالوں کا جواب غزل ہے۔“ میں نے گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا تودروازے کے باہر دیکھنے والے عدسے المعروف ”میجک آئی“یعنی ”چشمِ سحر“ پر سنہری ریشے سے بُنا ہوا ایک خوبصورت پرس جھول رہا تھا اور اس پر غزل کی مسکراتی تصویر عیاں تھی۔ اس کے نیچے تحریر تھا:
”جس ہستی سے محبت و مودت کے ساتھ زندگی تمام کرنے کا معاہدہ کیا ہے، اس سے صرف40روز کی جدائی برداشت نہیں ہو رہی، ایسا کیوں! غزل آپ کی ہے، آپ کی ہی رہے گی، دور ہوں تو کیا ہوا، خیالوں میں مجھے گنگنا لیجئے۔اب میز پر رکھا ہدایت نامہ دیکھئے۔“ میں نے میز پر دیکھا تو گلاب کے پھولوں اور اس کی خوشبو سے سجا ،خوبصورت گلابی لیٹر پیڈ دکھائی دیا جس پر لکھاتھا کہ یہ تحریر جس کی ملکیت ہے وہ ہے”Your's Me“، اس کے آگے اہم ہدایت یوں درج تھی:
”مجھے تم یاد کرنا ا ور مجھ کو یاد آنا تم“
اس کے بعد 40 ستاروں کے ساتھ 40اہم کام درج تھے اور آخرمیں تحریر کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والی نے اپنی اس تحریر کو جس کے حوالے کیا اس کا نام درج تھا ”Mine You“ اس سے پہلے آخری ہدایت یوں تحریر تھی:
”میں اک دن لوٹ کے آﺅں گی، یہ مت بھول جانا تم“