کوئی لوٹا دے بیتے ہوئے دن
ظفر قطب ۔ لکھنؤ
بی جے پی حکومت ہندوستان میں ’’اچھے دن‘‘ کے وعدے کے ساتھ آئی تھی لیکن اس سے زیادہ برے دن اس ملک میں کبھی نہیں آئے۔ وزیراعظم مودی جس وقت اقتدار میں آئے ان کی پوری ٹیم کے سامنے صرف ایک ہی جملہ تھا ’’اچھے دن‘‘۔ اخبارات ریڈیو اور ٹی وی پر دکھائے جانے والے پروگراموں مباحثوں اور اشتہارات کے ذریعہ صرف ایک ہی چیز کا پروپیگنڈہ ہورہا تھا کہ اچھے دن آنے والے ہیں ۔2غیر سیاسی شخصیات جو پردہ کی آڑ سے کھیل کھیلنے کے ماہر ہیں، بابا رام دیواورانّا ہزارے بھی اچھے دنوں کے پروپیگنڈے میں شامل تھے۔ ایک خاموش مسکراہٹ تو دوسرے اپنی بانچھیں کھول کراچھے دن کا خواب ملکی عوام کو دکھا رہے تھے۔دونوں کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ان کے تو اچھے دن آگئے۔ ایک سیاست میں گرو بن کر ابھرے تو بابا رام دیو کی جڑی بوٹیوں والی کمپنی اربوں کھربوں کا کاروبار کرنے لگی۔
مودی صاحب کی مخصوص ٹیم جس کو انھوںنے خود تیار کیا تھا اس کے اچھے دن آگئے اور ملک کے سرمایہ دار گھرانوں کی تو چاندی ہوگئی۔ پورے ملک کی دولت سمٹ کر ان کے گھرانوں میں آگئی۔ اس کے علاوہ ایک خاص منصوبے کے تحت ملک کے پورے ذرائع ابلاغ پر بھی انہی کاقبضہ ہوگیا۔ اب کہاں سے عوام کی بات اٹھے گی؟ اب ملک کے سامنے ’’اچھے دن‘‘ لانے کا حساب دینے کا وقت آگیا ہے۔ مشن 2019ء حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کے سامنے کھڑا ہے ۔ ملکی عوام کواب انتظار ہے آئندہ پارلیمانی انتخاب کی آمد کا۔ مودی حکومت نے اپنے 4 برسوں میں عوام کو جو ہوشربا گرانی عطا کی ہے اس سے ہر شخص پریشان ہے۔ کاشت کار کی پیداوار سیٹھ ساہوکار اور بنیئے نگل گئے تو ملازمت پیشہ افراداورچھوٹے کاروباریوں کی کمر اشیائے ضروری اور پٹرولیم مصنوعات کی گرانی نے توڑ کر رکھ دی۔ پٹرول اور ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے مودی حکومت کو بری طرح پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ یہ بات آئندہ الیکشن میں بی جے پی کے لیے برے دن ثابت ہوسکتی ہے۔ مودی دور میں ڈیزل 20 فی صد تو پٹرول کی قیمت8 فیصد سے زائد کی چھلانگ لگا چکی ہے۔
مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت 26مئی 2014ء میں اقتدار میں آئی تھی ۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے پٹرول سے سرکاری کنٹرول کی پالیسی کو ہٹایا گیا۔ اسکے کچھ دنوں بعد تیل کی مارکٹنگ کرنیوالی کمپنیوں کو ڈیزل کی قیمت بھی بین الاقوا می بازار کی بنیاد پر طے کرنے کی آزادی دیدی گئی۔ گزشتہ برس 16 جون کو پٹرول اور ڈیزل دونوں ایندھن کی قیمتیں عالمی منڈی کیمطابق یومیہ طے کی جانے لگیں۔ تیل کمپنیاں موجودہ حالات میں بین اقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں کے مطابق روزانہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تبدیلی کرتی ہیں۔مہنگائی کا انتہائی حساس موضوع گزشہ عام الیکشن میں بی جے پی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار تھا اور اس کے ذریعہ اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب جنرل الیکشن پھر سامنے کھڑا ہے اس لیے گرانی کا مسئلہ پھر سر اٹھا چکا ہے۔ اگر گزشتہ 4 برسوں کی گرانی کا جائزہ لیا جائے تو ڈیزل16.64 فیصد یعنی 11 روپے 25 پیسے فی لیٹر اوپر چھلانگ لگا چکا ہے ۔ یکم جون2014ء کو ڈیزل کی قیمت 57.28 روپے تھی جو آج بڑھ کر68.53 روپے ہوچکی ہے۔ ڈیزل جس کا استعمال کاشت کار بھی اپنے ٹریکٹر اور پمپ سیٹ وغیرہ کیلئے کرتا ہے اس کی گرانی بھی مودی حکومت کو پریشانی میں ڈال سکتی ہے۔اس ملک میں آبپاشی والی زمین کا رقبہ کم ہے اس لیے کسانوں کو بار ش کے پانی پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مانسون کے دغا دیدینے کے بعد کاشت کاروں کی آبپاشی کیلئے ڈیزل بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
ملک کی تقریباً دو تہائی آبادی آج بھی زراعت پر انحصار کرتی ہے اور اگر ڈیزل کے دام اسی طرح بڑھتے رہے تو آئندہ بی جے پی حکومت کی مشکلیں مزید بڑھ جائیں گی ، اسی طرح پٹرول کی قیمت میں بھی مودی حکومت کے اختتام تک 8.22فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اس وقت 77.70 پیسے کے آس پاس پٹرول فروخت ہورہا ہے۔ گزشتہ برس یکم جولائی سے ملک میں ایک نیا ٹیکس نظام جی ایس ٹی نافذ ہوا ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات کو اس کے دائرہ میں لانے کے سلسلہ میں ریاستوں اور مرکزی حکومت میں تال میل قائم نہیں ہوسکا اس طرح پٹرول اور ڈیزل جی ایس ٹی سے باہر ہوگئے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ایندھنوں پر سیل ٹیکس اور ویٹ کی شرح الگ الگ ہونے کی بنا پر پورے ملک ان کی قیمتیں یکساں نہیں۔ ملک کے کاروباری شہر ممبئی میں زیادہ رہتے ہیں اس لیے دہلی کے مقابلہ ممبئی میں دونوں ایندھنوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں ممبئی میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 85.29 روپے کے آس پاس ہے تو ڈیزل کی قیمت 72.96 روپے فی لیٹر ہے ۔ویسے اگر بین الاقوامی بازار پر نظر ڈالی جائے تو مودی حکومت کے ابتدائی3 برسوں میں کچے تیل کی قیمت میں ریکارڈ گراوٹ آئی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ صارفین کو نہیں ملا۔ اس کے برخلاف حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ کیا، جاری برس کے ماہ جنوری کے بعد دونوں ایندھنوں کی قیمتوں میں زبردست تیزی آئی جس کا سلسلہ مئی کے آخر تک برقرار رہا جب جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کا الیکشن شروع ہوا تو تیل کمپنیوں نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر 19 دن ایندھن کے دام نہیں بڑھائے لیکن جیسے ہی ووٹنگ ختم ہوئی قیمتوں میں اضافہ کا دو رپھر شروع ہوگیا۔
اپوزیشن لاکھ شور و ہنگامہ کرلے اس کی تعداد اتنی کم ہے کہ حکومت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں۔ اقتدار کے نشہ میں چوربی جے پی انہی خطوط پر چل رہی ہے جس پر اس کی رہبر پارٹی آر ایس ایس چلا رہی ہے۔ عالم اب تو یہ ہوگیا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر وہ رد عمل نہیں نظر آتا ہے جو ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ملک کے دوسرے وزرائے اعظم کے دو ر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب تو ایک خاص نظریہ کے نام نہاد ماہرین معاشیات بیٹھتے ہیں تو جو گرانی کو ملک کی ترقی ثابت کرنے میں اپنی ساری طاقت صرف کردیتے ہیں لیکن عوام کو اس سے تسلی نہیں ہوتی وہ اپنے پرانے دنوں کی واپسی کے خواہاں ہیں۔