Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماہ شوال کے روزے رکھنا پورے سال روزے رکھنے کے مساوی

احادیث میں 6 روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ، لہذا یہ روزے ماہ ِشوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی
 
 * * *ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ۔ ریاض* * *
 شوال کے 6روزے واجب یا سنت؟:
    قرآن وسنت میں شوال کے6 روزوں کے واجب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ ـ اس وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شوال کے یہ 6 روزے فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت ہیں۔ شوال کے ان6 روزوں کے سنت ہونے پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔صرف امام مالک ؒ نے اپنی کتاب موطا امام مالکؒ میں(رمضان کے فوراً بعد یعنی عیدالفطر کے دوسرے دن سے) ان6 روزوں کے اہتمام کو مکروہ تحریر کیا ہے۔
بعض حضرات نے عیدالفطر کے فوراً بعد ان6 روزوں کو رکھ کر ساتویں شوال کی شام کو ایک تقریب کی صورت بنانی شروع کردی تھی، ممکن ہے کہ اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہؒ نے عیدالفطر کے دوسرے دن سے اہتمام کے ساتھ یہ 6 روزے رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہوتاکہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں فرق کیا جاسکے جیساکہ امام قرطبیؒ نے تحریر کیا ہے کہ خراسان کے بعض حضرات نے رمضان کی طرح عیدالفطر کے بعد ان 6 روزوں کا اہتمام کیا۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ شوال کے 6روزے سنت ہیں اور عید الفطر کے دوسرے دن سے ان روزوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
    شوال کے 6روزے رکھنے کی فضیلت:
    حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :
    " جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد6 دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔" (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔
      مذکورہ حدیث میں" دہر" کا لفظ آیا ہے جس کے اصل معنیٰ زمانے کے ہیں لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں یہاں سال مراد ہے۔
    رسول اللہ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے6 روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے۔اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم 10 گنا ملتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    "جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو10نیکیوں کا ثواب ملے گا۔" ( الانعام160) ۔
      اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو 10مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے6 روزے رکھے گا تو60 دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر  12 مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔
    مذکورہ فضیلت کے علاوہ علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیںشوال کے ان 6روزوں سے اللہ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان 6 روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ہے۔
    شوال کے روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں:
    احادیث میں 6 روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ، لہذا یہ 6 روزے ماہ ِشوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔ 
    رمضان کے فوت شدہ روزوں اور شوال کے6روزوں میں سے کون سے پہلے رکھے جائیں:
    اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئے تو تحقیقی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے اگر کوئی شخص شوال کے6 روزوں کو رکھنا چاہے تو جائز ہے کیونکہرمضان کے روزوں کی قضا فوری طور پر واجب نہیں بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔
    نبی اکرم کے زمانے میں عورتیں حتیٰ کہ ازواج مطہرات اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا عموماً 11ماہ بعد ماہ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیساکہ احادیث میں مذکور ہے۔ 
    نوٹ: اگر کسی شخص نے ان 6 روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا 2روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -نبیٔ کریم رحمت للعالمین

شیئر: