Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان حل اور سعودی عرب کی غیر متزلزل پالیسی

13جولائی 2018جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبار” الاقتصادیہ“ کے صفحہ اول کی شہ سرخیاں
کئی عشروں پر محیط افغانستان کیلئے سعودی عرب کی خدمات ایسی ہیں جن پر اسے فخر و ناز کا پورا حق ہے تاہم سعودی عرب نے کبھی بھی اپنی خدمات کے گیت نہیں گئے۔ مملکت کی غیر متزلزل پالیسی یہ ہے کہ قابل قدر خدمات وہ ہیں جو اپنا تعارف خود کراتی ہیں۔فلسطین کا مسئلہ ہو یا لبنان کا بحران ہو یا کسی اور مسلم عرب ملک کو کسی مصیبت اور آفت کا سامنا ہو، ہر ایک کے ساتھ سعودی عرب کا موقف یہی رہا ہے۔ 
اس تناظرمیں افغانستان کے حوالے سے سعودی عرب کے کردار کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ سعودی عرب نے جدہ اور مکہ مکرمہ میں عظیم الشان کانفرنس سے قبل کئی بارافغانستان کے بحران کی گتھیاں سلجھانے کے سلسلے میں پہل کی۔ نئی کانفرنس بین الاقوامی تھی اس میں  افغانستان کے امن و استحکام کیلئے دنیا بھر کے مسلم علماءکو شریک کیا گیاؒ تھا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے کانفرنس کے نمائندہ وفد میں شامل مسلم علماءسے گفتگو کرتے وقت معمول کے مطابق دوٹوک زبان استعمال کی۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ بحران کے آغاز سے ہی سعودی عرب کو افغانستان کے دکھ درد کا احساس ہے۔ سعودی عرب برسرپیکار افغان فریقوں کے درمیان مکمل مصالحت سے کم پر راضی نہیں ہوگا۔
شاہ سلمان نے دوسری اہم بات یہ کہی کہ دین اسلام کی خدمت رواداری، میانہ روی اور لچک کا راستہ اختیار کرکے ہی کی جاسکتی ہے۔ افغان فریقوں کو دین اسلام کی ہدایات کے مطابق رواداری اور مصالحت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ 
بین الاقوامی کانفرنس نے شرعی نقطہ نظر سے بحران کےلئے مناسب حل تجویز کئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام افغان فریقوں کو اختلافات ، رنجشوں اور شکایتوں سے بالا ہوکر مجوزہ حل قبول کرنے ہونگے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو افغانستان کا خیر خواہ ہے، اسے خادم حرمین شریفین کی اپیل اورہدایات کی صورت میں افغانستان کا فوری اور مناسب حل نظر آئے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: