کراچی کا مستقبل کیا ہوگا؟
پوری قوم اب الیکشن میں مست ہے خصوصاً کراچی والے کسی ایسی سیاسی جماعت کی تلاش میں ہیں ۔جو کراچی کو گود لے کر دوبارہ اُس کی رونقیں بحال کردے ۔وعدوں پر اب ان کو اعتبار نہیں رہا ،مہاجر کا سیاسی باب اب بند ہونے کو ہے ۔اس نام کو 40سال صرف ایک شخص نے بے دردی سے استعمال کیا اور کراچی والوں کے تمام حقوق ایک ایک کرکے پیپلز پارٹی سند ھ کے گود میں ڈال دیئے ۔
پی پی پی والے خود سندھ کو بد حال کرکے اپنی جیبیں بھرتے رہے ۔اب نواز شریف کے بعد نیب نے ڈائریکٹ پی پی پی پر اٹیک کرتو دیا ہے مگر 40ارب روپے کے کرپشن کو دکھاکر صرف ڈیڑھ کروڑ روپے سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کے حصے میں آئے بقایا بڑی رقمیں کہاں گئیں؟اگر نیب نے پی پی پی کو زیادہ تنگ کیا تو پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں بڑی پارٹیاں مل کر الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرسکتی ہیں ۔وکلاء نوازشریف کے احتساب عدالت کے فیصلے کو بہت کمزور کیس گردان رہے ہیں ۔
نیب اور جے آئی ٹی نے لندن کے فلیٹس نوازشریف اور اُن کے صاحبزادوں کے استعمال میں تو 1995ء سے ہیں اور وہ آج بھی ان میں رہ رہے ہیں مگر ملکیت کس کی ہے وہ نہیں بتاسکے ۔اسی کمزور فیصلے کا فائدہ اُٹھاکر نوازشریف لندن سے واپس آئے۔ اُس کا عوام کا ردعمل خود نگراں حکومت کے لئے ایک چیلنج ہوگا۔اگر حکومت نے مداخلت نہ کی تو لاہوری سڑکوں پر ضرور نکلیں گے۔ جس جس سے میں نے خود پوچھا ان کا کہنا ہے کہ شہبازشریف نے لاہور کے لئے بہت کام کیا ،سڑکیں ،پُل،ٹرین ،بسیںبنی تو سہی۔ اگر کرپشن کی ہے تو آج کل کون کرپشن کے بغیر کام کرتا ہے ۔اس کے برعکس سندھ اور کراچی میں تو کام ہی کوئی نہیں ہوا۔
آخری مرتبہ پرویزمشرف کے دُور میں جب مرکز نے ڈائریکٹ گرانٹ متحدہ والوں کو دی تو مصطفی کمال نے بہت کم مدت میں کراچی کی سڑکیں ،فلائی ا وورز، سیوریج لائنیں ڈال کر کراچی کو چمکادیا تھا ۔اُس کا کریڈٹ پی ایس پی والے لے کر میدان میں اُترے ہیں مگر جب میں نے ایک پی پی پی کے مضبوط امیدوار سے پوچھا تو اُس نے کہا عوام متحدہ سے بگڑے ہوئے ہیں وہ اب مہاجر سیاست سے بے زار ہیں، متحدہ کو اب بہت کم سیٹیں ملیں گی مگر جب یہی سوال متحدہ والوں سے پوچھو تو وہ بہت پرامید بیٹھے ہیں کہ الطاف حسین نے قوم کو دھوکہ دیا تھا ہم خود استعمال ہوئے تھے مگر ہم نے کبھی کراچی والوں کو اکیلا نہیں چھوڑا ۔
شہباز شریف نے جب کراچی میں جلسہ کیا اور کہا میں کراچی کو پیرس بنادوں گا مگر وہ یہ کہہ کر تو چلے گئے اور اپنے بھائی کے استقبالی جلوس کے لئے لاہور کو ترتیب دینے میں لگ گئے مگر ایک ہی بارش نے لاہور کو واپس پیر س سے لاہور بنادیا ہے۔ رہا عمران خان کا کراچی میں جو ووٹ بینک بنا تھا وہ اب دور دور تک نظر نہیں آرہاہے کیونکہ پی ٹی آئی نے آج تک کراچی میں ایک دفتر تک تو نہیں کھولا ۔اُس کے منتخب نمائندے پورے 5سال غائب رہے اور کراچی کے مسائل سے اُن کو کوئی سروکار نہیں تھا ۔وہ متحدہ والوں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ۔
رہا پی پی پی والوں کا تو پی پی پی نے تو کراچی میں آج تک لیاری اور ملیر کے علاوہ کوئی سیٹ 30سال میں نہیں جیتی ۔اب تو لیاری اور ملیر والے بھی اُن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہیں ۔ان کے باشندے جو جئے بھٹو کے نعرے لگاکر ووٹ ڈالتے تھے گزشتہ 10سال کی کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے خلاف ہوچکے ہیں ۔
اب ایم ایم اے کی سیاسی صورت حال صرف وہ حلقہ جو بہادرآباد سے گلشن این اے 243 ہے وہ ہمیشہ جماعت کا علاقہ سمجھاجاتا تھا مگر اُس کے قومی حلقے کے امیدوار خود 5سال سے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے ۔اُن کو مناکر جماعت واپس تو لے آئی مگر کیا عوام ایم ایم اے کے ماضی کے اتحاد سے نالاں نہیں تھے جو دوبارہ ان کے مل جانے پر پھر کراچی کو فائدہ پہنچاسکیں گے۔ یہ بھی سوال عوام کے ذہنوں میں ہے ۔
کراچی میں آزاد اور برادری سسٹم کا رواج نہیں ہے۔ حقیقت کی نگاہوں سے تجزیہ کیا جائے تو کراچی کی سیاست اس وقت خلاء میں ہے ۔جب الطاف حسین پر پابندی لگی تو کسی سیاسی جماعت نے آکر کراچی والوں کی طرف نہیں دیکھا ۔3سال کراچی میں رینجرز،پولیس اور فوج کا دہشت گردی کے خلاف آپر یشن ہوتا رہا ۔نہ لیاری والوں کا کسی نے ساتھ دیااور نہ اُردو بولنے والوں کو بچانے کوئی آیا ۔اب ہرکوئی اُس کا مداوا کرنے کا دعوے دار بن رہا ہے ۔
ایک آخری حربہ الطاف حسین جو اس وقت بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں ہوسکتا ہے جب وہ اپنے ہاتھ سے پورا کراچی جاتا دیکھیں تو وہ بائیکاٹ ختم کرکے پتنگ پر مہر لگانے کا عندیہ بھی دے سکتے ہیں ۔الیکشن میں صرف ڈیڑھ ہفتہ باقی رہ گیا ہے سڑکوں ،گلیوں میں بینرزکی بھر مار ہے ۔کارنر میٹنگیں بھی جاری ہیں مگر اُردوبولنے والے ابھی تک منہ نہیں کھول رہے ہیں، کہ کراچی کا رزلٹ کیا ہوگا ۔کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا، یہ پہلا موقع ہے سب کے لئے کھلا میدان تھا مگر فائدہ کسی نے نہیں اُٹھایا ۔اب 25جولائی کا سورج جب طلوع ہوگا تو پتہ چلے گا کراچی کا کون وارث بنتا ہے ۔