رشک و حسد ، فرق معمولی ، اثرات بھیانک
رشک اور حسد میں بہت کم فاصلہ ہے، رشک کب حسد میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کو خبر بھی نہیں ہوتی
* * * ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔ شارجہ* * *
انسان کا نفس ہر چیز میں اعلیٰ معیار کی طلب پر پیدا کیا گیا ہے اسی لیے وہ ہمیشہ دوسروں سے ممتاز، الگ، منفردبننا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی ہم نفس اس سے بہتر ہو جائے، اس سے آگے نکل جائے۔ جب کوئی اس سے بہتر ہو جاتا ہے، سبقت لے جاتا ہے، بہتر و بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کو دل میں رنج پہنچتا ہے اور طبیعت پہ شاق گزرتا ہے۔ اس کی نعمت پر تنگ دل ہوتا ہے، خوشی کا اظہار نہیں کرتا، چہرہ بجھ جاتا ہے۔ اس شخص سے جس کو نعمت ملی ہوتی ہے، عزت و شرف عطا ہوتا ہے نظریں چراتا اور ملنے سے گریز کرتا ہے۔ چاہتا ہے لوگ بھی کامیاب شخص کے اس کے سامنے تذکرے نہ کریں۔ لوگوں کی نظروں میں اس شخص کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرنا چاہتا۔ حیلے بہانے سے اس کی برائیاں بیان کرتا ہے۔ اس کی بشری کمزوریوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بہانے سے اس کے شخصی تاثر کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھ سے کمتر ہی رہیں یا زیادہ سے زیادہ بس میرے جیسے رہیں۔
یہ احساس اور جذبہ چونکہ انسانی فطری کمزوری میں شامل ہے اس لیے اس سے کسی کو مفر نہیں لیکن اس کے مثبت پہلو پر غور کیا جائے تو دراصل یہی جذبہ انسان کو آگے بڑھنے، حوصلہ دینے اور ہمت بڑھانے کی خاطر اس کے اندر رکھا گیا ہے۔ اگر دوسروں سے مسابقت کا جذبہ نہ ہوتا تو انسانی ارتقا ہی نہ ہوتا۔ اس دوسرے جذبے کا نام رشک رکھا گیا۔ جب انسان اس فطری احساس کو منفی طور پر خود پر غالب کر لیتا ہے تو وہ حسد کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور حسد انسانی خوبیوں سے بالکل الگ چیز ہے۔ یہ ایک شیطانی جذبہ ہے۔ انسانی جذبہ مسابقت کا ہے لیکن شیطانی جذبہ دوسرے کو محروم و حقیر کر دینے کا ہے۔
مسابقت کا یہ جذبہ ہم عمر، عم عصر اور ہم سَر لوگوں میں ہمیشہ رہتا ہے۔ کامیاب ہو کر گزر جانے والے لوگوں سے حسد نہیں ہوتا، وہ لوگوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں مگر ایک ہی جماعت کے طالب علم، ایک ہی عمر کے لوگ، ایک ہی پیشے سے منسلک لوگ ایک دوسرے سے ہمت پاتے اور آگے بڑھنے کی تگ و دور کرتے ہیں یا حسدکرتے ہیں۔
مسابقت کا جذبہ دراصل معرفت ِ حق کا پرتو ہے۔ مقصد کو پانے کے لیے سیکھنے کا عمل ہے۔ رشک اور حسد میں بہت کم فاصلہ ہے۔ رشک کب حسد میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ نفس کے شر سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ جب انسان دل کی گہرائیوں سے دوسرے کی نعمت پر یہ اظہار کرے کہ ’’اے منعم حقیقی! تو نے جس طرح اپنے اس بندے پر کرم کیا ہے، عطا کرنے والے! تُو مجھے بھی اس عزت و شرف اور نعمت سے نواز دے ،بے شک تُو ہی سب کو عطا کرنے والا ہے‘‘، تو یہ اس رب کی بخشش و عطا کو تسلیم کرنا ہے، اُس کی تقسیم پہ راضی رہنا ہے۔
اگر انسان اپنے دل کو منفی احساسات سے بھرلے گا تو فائدہ بھی کیا ہے؟ نعمتیں تقسیم کرنے والے رب کو حاسد کا رنج اور دکھ تقسیم اور عطا سے نہیں روک سکتا بلکہ اس رب کائنات کی تقسیم اور عطا پر غصہ کرنا اس کی ناراضگی اور غضب کو دعوت دینا ہے۔ دنیا میں مالک اپنے نوکروں کو جیسے چاہے رکھے، جس کو چاہے جو چاہے دیدے، کوئی اعتراض کرے تو اپنا حشر بھی دیکھے۔ ایک رب کائنات کے معاملات پر اعتراض کرنا ہر کوئی کتنا آسان سمجھتا ہے۔
حسد کا علاج یہ ہے کہ جب کسی کو اپنے سے بہتر دیکھے تو کوشش کرکے دل سے منفی احساسات کو روکے اور بار بار اللہ کی حمد بیان کرے اور اس نعمت کو پانے کی دعا کرے ۔دل کے احساسات کو بے لگام کر دینے سے منفی جذبات غالب آ جاتے ہیں اور انجام کار انسان، انسانیت کے جوہرِ اخلاق سے عاری ہو جاتا ہے اور انسان کا درجہ ظالم کا سا ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو خدائی معاملات میں دخیل سمجھتا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کا شریک ہونا چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے برابر یا مدمقابل آتا ہے، اس کے فیصلوں اور عطا و بخشش کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ بربادی کو دعوت دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔
اپنے آپ پر ظلم کرنے والے کا علاج کوئی نہیں۔جو خود کو قابل رحم نہ سمجھے وہ کسی کی طرف سے بھلائی کو قبول نہیں کر سکتا۔ حاسد ایسا ہی ظالم ہے جو خود کو جیتے جی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے اور اس اذیت سے نجات ممکن نہیں جب تک کہ وہ اپنے دل کی کیفیات پر سچے دل سے غور نہ کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا توپھر اس کا علاج صرف موت ہے۔مرنے کے بعد حسرتوں اور محرویوں کا نیا باب شروع ہو گا۔
دنیا میں دوسروں کی عزت و توقیر اور اپنے سے بہتر حالات پر حسد کرنے والے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ناقدانہ نظر رکھنے والے، اپنے عمال صالحہ کی دھن دولت بھی دوسروں میں تقسیم ہوتا دیکھیں گے اور تہی دامنی کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔