Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب دنیا کا تندور

ڈاکٹر فواد مصطفیٰ عزب ۔ عکاظ
ہیتھرو ایئر پورٹ کے ویٹنگ ہال میں بیٹھے بیٹھے میں نے وہاں کے ایک اخبار میں دلچسپ خبر پڑھی۔ خبر یہ تھی کہ شراب کا عادی انگریز ایک سڑک پر گھوم پھر رہا تھا۔ اسی وقت اسکاٹ لینڈ کا فوجی وہاں سے گزرا ۔ اس موقع پر اس کی پینٹ کا توازن بگڑ گیا۔ شراب میں دھت انگریز نے راہگیروں کے سامنے اس پر ہلّہ بول کر اس کی پینٹ اوپر کردی ۔ اسکاٹ لینڈ کے فوجی کو اس حرکت پر غصہ آگیا ۔ اس نے دھار دار آلہ نکال کر شراب میں دھت انگریز کو لہو لہان کردیا۔ جج نے جب شرابی سے اس کے اس تصرف کا سبب دریافت کیا تو اس نے بڑی سادہ لوحی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دراصل میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ مختصر پینٹ کے نیچے کیا چھپائے ہوئے ہے۔ 
میرا خیال ہے کہ ہر اجنبی اپنے دل کی گہرائی سے عرب دنیا کی گرتی ہوئی پینٹ اٹھاکر یہی جاننا چاہتا ہوگا کہ یہ لوگ پینٹ کے نیچے کیا چھپائے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ اہل مغرب کیلئے گتھی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ مصرکے اہرامات ہوں، بابل کے معلق باغیچے ہوں ،یہ سب کے سب اہل مغرب کے یہاں گتھی کا درجہ رکھتے ہیں۔ لندن سے شکاگو جانے والے طیارے میں ایک 60سالہ خاتون رفیق سفر بنی۔ اس کے بال چھوٹے اور سفید تھے ۔ وہ ایک ہار پہنے ہوئے تھی۔ اس کے درمیان میں پرانی تصویر نظر آرہی تھی۔ جب خاتون برابر کی نشست پر براجمان ہوئی تو میں نے اسکی شناختی دستاویزات اور بورڈنگ کارڈ پر نظر ڈالنے کی کوشش کی۔بوڑھی خاتون نے مسکراتے ہوئے مجھے سلام کیا اور اس وقت اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ جیسے ہی طیارہ لندن سے اڑا بڑی بی نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کبھی کبھی نیند کی گولیاں بھی بڑی کارگر ثابت ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ان کی عادت لاعلاج مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ فلسطینی بحران اس کی ٹھوس مثال ہے۔ سفر کے دوران نماز ادا کرنے کیلئے میں طیارے کے اگلے حصے میں چلا گیا۔ اس دوران بوڑھی خاتون نیند سے بیدار ہوچکی تھی۔ انہوں نے مجھے جانماز لپیٹتے اور اپنا چرمی بیگ سمیٹتے ہوئے دیکھا۔
بوڑھی خاتون کی آنکھیں میرے اوپر جمی ہوئی تھیں۔ وہ طوفان نوح کے زمانے میں پائی جانے والی بطخوں کی طرح خاص انداز میں اپنی آنکھیں گھما رہی تھیں۔ خاتون نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا آپ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں؟میں خاتون کو درست جواب دینے کا پابند نہیں تھا۔ وہ میرے لئے خدا نہیں تھی کیونکہ نماز کا معاملہ میرا اور میرے رب کا ہے۔ میں نے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اثبات میں جواب دیا۔ اس وقت میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی جبکہ خاتون کے چہرے پر ہنسی پھیلی ہوئی تھی۔ ہم دونوں مسکرائے ۔مسکراہٹ غالباً ایک دوسرے کے سوال و جواب سے نجات کا ذریعہ بن گئی۔ خاتون کتاب کی ورق گردانی کرنے لگی اور اسی دوران ایک بارپھر نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ نیند کی حالت میں کتاب اس کی گود میں رکھی ہوئی تھی اور اس کی انگشت شہادت اس صفحہ پر جمی ہوئی تھی جہاں تک پڑھ چکی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کا چہرے سادگی کا نمونہ نظر آیا۔ مجھے الجھن محسوس ہوئی ۔ وجہ یہ ہوئی کہ کئی لوگوں کی نظریں میری طرف لگی ہوئی تھیں اور وہ میری اس حرکت کو ناپسند کررہے تھے۔ خاتون تھوڑی دیر بعد جاگی اور مجھے غور سے دیکھنے
 لگی۔ مسکراکر بولی میرا تعلق کینیڈا سے ہے۔ میرا نام ازبیل ہے۔ میں نے بھی اپنا تعارف کرایا ۔جب اسے یہ پتہ چلا کہ میں عرب ہوں تو اس کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔ کہنے لگی کہ میں مصر کی سیر کرچکی ہوں۔ تم لوگ ایک گتھی ہو سمجھنے کی نہ سمجھانے کی۔
بوڑھی خاتون نے یہ بات اس انداز سے کہی گویا وہ تیر اندازی میں کوئی میڈل حاصل کئے ہوئے ہو۔ رفتہ رفتہ ہم دونوں کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔خاتون نے میرے اوپر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ کہنے لگی کہ عرب لوگ سڑکوں پر اتنا لڑتے جھگڑتے کیوں ہیں؟ آخرتشدد، سختی،انتہاپسندی اور جذبات کے معاملے میں جمود آپ کے یہاں اتنا کیوں ہے۔ آپ کے یہاں کے شہری کیمروں کے سامنے آتے ہیں تو چہروں پر ایک جمود طاری ہوتا ہے۔ میں نے بڑی بی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کوئی سیاستداں نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بندر مجھ سے کہیں زیادہ سیاسی فہم رکھتے ہوں گے۔ ہمارے یہاں تشدد اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے البتہ محبت ، شعرو شاعری، موسیقی وغیرہ بھی پائی جاتی ہے۔ ہم لوگ شادی کرتے ہیں،ہمارے یہاں اولاد ہوتی ہے۔ خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے ہم دنیا کے دیگر اقوام سے مختلف ہوں۔ اچانک خاتون نے اپنا سر اٹھایا عجیب انداز میں مسکرائی۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ آیا یہ ان کی اندرونی خوشی کی علامت تھی یا میری سادہ لوحی کا مذاق اڑا رہی تھی۔ دراصل میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہماری اپنی ایک پہچان ہے۔ خاتون نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ خصوصی پہچان کی بات کہہ کر کیا کہنا چاہتے ہیں؟مجھے ایسا لگا کہ وہ زبان حال سے یہ کہہ رہی ہو کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ دنیا ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے اور ان کے اندر صدائے بازگشت کے سوا کوئی اور آواز نہیں آتی اور وہ اپنی مخصوص حیثیت کے نشے میں مبتلا ہوں۔ان کے اطراف کی دنیا بدلتی رہتی ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر:

متعلقہ خبریں