Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئیے کریں وفا والے سجدے ،حیا والے سجدے

اللہ کو سجدے کرنے والا شخص ’’وفاداراور حیا بار‘‘ اسی وقت کہلائے گا جب  وہ اس کے تقاضوں کو سمجھ کر اسے پورا کرنے کی صدق دل سے کوشش کرے گا
 
* * * محمد رضی محمد رفعت ۔ جدہ* * *
سجدہ اسلام میں عبادت سے تعلق رکھنے والا ایسا عمل ہے جس میں خشوع و خضوع اور تعظیم کی خاطر اللہ کے سامنے اپنی پیشانی جھکائی جاتی ہے۔ اعضاء و جوارح کو خم کیا جاتا ہے ،اسلامی عبادات میں اسے انتہائی عجزوانکساری کا درجہ حاصل ہے ۔
     جب ہم سجدہ کرتے ہیں توتمام راستے درست اورتمام دروازے کھل جاتے ہیں اورہماری دعائیں مقام الوہیت کی طرف بلندہوتی ہیں اورہمیں معززفرشتے گھیر لیتے ہیںبشرطیکہ یہ سجدے خلوص نیت اور صدق دل سے ہوں، دکھاوا اور ریاکاری کا ان میں شائبہ نہ ہو۔
    سجدہ انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے اور انسان اللہ کے احکامات کو بجا لانے میں زیادہ مستعد اور پابند ہوجاتا ہے ، ارشادباری تعالیٰ ہے :
    ’’نماز میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اس کا قرب حاصل کرو ۔‘‘(العلق19)۔
    حدیث مبارک میں بھی آتا ہے کہ بندہ اللہ کے سب سے قریب سجدہ ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔اللہ سے قریب ترین ہونے کا احساس اس بات کا متقاضی ہے کہ بندہ اللہ کے بتائے ہوئے ہر ہر راستے کو اپنی زندگی میں اپنالے ،خواہ اس کاتعلق حقوق اللہ سے ہو یا پھر حقوق العباد سے ۔
    ہر مسلمان نمازپڑھتا ہے اگرچہ پنج وقتہ نماز کی پابندی کرنے والوں کی تعداد اقلیت میں ہے ،نیز اس اقلیت کی اکثریت بھی نماز کی پابندی تو ضرور کرتی ہے مگر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے مقصد اور اس میں مضمر الہامی پیغام سے نابلد ہی نظر آتی ہے۔
    سجدہ محض نماز کی علامت نہیں بلکہ سجدہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے قوانین کے آگے جھک جانے اور سر تسلیم خم کردینے کانام ہے۔گویایہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ’’ ہم صرف اور صرف اللہ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر ہی چلنے کیلئے تیار ہیںاور اسی پر عمل پیرابھی رہنا چاہتے ہیں اور آج سے ہمارے تمام تر معاملات اللہ ہی کے بتائے ہوئے طورطریقوں اوراسی کی طرف سے نازل کردہ تعلیمات کے عین مطابق ہوںگے ۔
    اللہ کو سجدے کرنے والا شخص ’’وفاداراور حیا بار‘‘ اسی وقت کہلائے گا جبکہ وہ اس کے تقاضوں کو سمجھ کر اسے پورا کرنے کی صدق دل سے کوشش کرے گا۔سجدہ ،در حقیقت اللہ تعالیٰ سے وفادار ہونے کی علامت اوراس کا مطیع ہونے کا اقرار ہے اور اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا ایک پہلوتو یہ ہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہوں تو حقوق اللہ کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھیں ،خشوع وخضوع اور تمام ارکان کی صحیح اور درست انداز میں ادائیگی ہمارے پیش نظر ہوـہمیں اس بات کا گہرا علم واحساس ہونا چاہیے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے کیا حقوق ہیں اور اس حقوق کی ادائیگی احسن طریقہ سے کیسے ممکن ہے ۔
    اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پربہت سے حقوق ہیںجس میں سب سے اہم توحید ہے اوروہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کواس کی ذات وصفات اوراس کے اسماء وافعال میں یکتاواکیلاماناجائے اور کسی کو اس کا شریک نہ سمجھا جائے ،نیزیہ اعتقاد رکھاجائے کہ بیشک اللہ وحدہ ہی رب اورمالک اورسارے معاملات میں تصرف کرنیوالااور رزق دینے والاوہی ہے جس کے ہا تھ میں بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہے جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کافرمان ہے:
    ’’بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقادر ہے ۔‘‘(الملک1) ۔
    اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی خالص عبادت کریں اور دین کے جو امور ہیں ان کو بحسن و خوبی ادا کریں۔ پنچگانہ نماز کی پابندی کریں۔ یہ ہمارے گناہوں کی مغفرت کا باعث اور دل کی پاکی وصفائی کا سبب ہونگی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان نمازوں کو ان کے آداب کے ساتھ مکمل ادا کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ’’پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘(التغابن 16 )۔
    ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں ،میں ان سے طالبِ رزق نہیں، اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے (کھانا)کھلائیں، اللہ ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے۔‘‘(الذاریات 58-56)۔
     اللہ تعالیٰ کا بندوں سے بس یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس کی خالص عبادت کریں اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کوشریک نہ کریں اور حقیقی معنوں میں اس کے بندے بن جائیںاور اپنی زندگی کو اس کے مطابق گزاریں ۔
     اس سے ثابت ہوتاہے کہ سجدوں اور عبادتوں کا حاصل اللہ پرایمان لانااوراس کی ذات کی معرفت حاصل کرنااور پھر محبت اورتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کی روشنی میں اس معرفت کے تقاضوں پرعمل کرناہے۔
     اللہ تعالیٰ کی معرفت ہم سے اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ ہم ناسمجھی کا مظاہرہ نہ کریں اور نہ ہی کوئی نامناسب کام کریںبلکہ واضح آیات کی روشنی میں نبی اکرمکے ارشادات کی پیروی کرتے ہوئے ہمہ وقت رضائے الہٰی کی جستجومیں رہیں۔
    یہ عین انصاف کا تقاضاہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں تو یہ سجدہ ،یہ نماز خالصتاً اس کی رضا کے لئے ہو،نہ کہ لوگوں کے سامنے خود کو عبادت گزار ثابت کرنے کیلئے ۔ہماری عبادت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہو،نہ کہ لوگوں سے داد کیلئے۔کام اور ڈیوٹی کے دوران جب ہم نماز کیلئے وقت نکالیں تو یہ نماز اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سر خم کرنے کے شوق سے ہو نہ کہ ڈیوٹی سے دل چرانے اور کام کاج کی مصروفیت سے کچھ دیر کیلئے خودکو فارغ کرلینے کی نیت سے ہو۔
    خلوص دل سے ا للہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا دوسرا اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھی وفادار ہوں ،ان سے معاملات کرتے وقت ، انسانی رشتوں کو نبھاتے وقت ہمیں یہ حیاملحوظ رہے کہ ہماری ذات سے دوسروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ،ان کی کوئی حق تلفی نہ ہو،ان کو کسی طرح کی کوئی ٹھیس نہ پہنچے ۔
    اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ’’اللہ ‘‘ اور’’اللہ کی مخلوق ‘‘ ہرایک کے معاملے میں اس اللہ ہی کی طرف سے نازل کردہ احکامات پر عمل پیرا ہوں ،وفا سے کام لیں حیا والا معاملہ روا رکھیںکیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اخلاص ووفا اور حیا کی غیر معمولی قدروقیمت ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بڑی ہی خشوع وحضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی کرنے والے پرنور چہرے والے بعض حضرات بھی نماز سے فارغ ہوکر جب بندوں سے معاملہ کرتے ہیںتو اخلاق سے عاری اور پنج وقتہ نماز کی پابندی کا زعم کہیں نہ کہیں ان پر طاری نظر آتا ہے اور وہ لوگوں سے قدرے بڑائی والے انداز میں بات کرتے ہیں لوگوں کی اصلاح بھی کرتے ہیں تو بھی ان پرطنزیہ انداز ہی حاوی رہتا ہے حالانکہ نماز وسجدوں کی پابندی ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم پراس کے اثرات اسلامی احکامات وتعلیمات سے عبارت زندگی کی شکل میں مرتب ہوں، ہمارے جسم وجاں او ر اعضاء جوارح سے سرزد ہونے والے ہر معاملے پر مثبت اثرات ظاہر ہوں ، خوش اخلاقی ،نرم خوئی سچائی ، ایمانداری ،باہمی اخوت ومحبت کاجذبہ موجزن ہو،افہام وتفہیم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو ،دوسروں سے معاملات میں شائستگی ، شفافیت ،صداقت پیداہو،ایک دوسرے کے نقطہ نظر و طرز فکر کو سمجھنے کیلئے سینوں میں وسعت پیدا ہو،باہمی بھائی چارہ وحسن معاشرت کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت پیدا ہو ۔
    سردست مسلم معاشروں میں مالی، اخلاقی ، تہذیبیِ، معاشی انتخابی، وسیاسی ہر سطح پر مختلف خامیاں موجود ہیں،جس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ  کے بتائے ہوئے احکام کی پیروی صدق دل اور خلوص سے نہیں کرپارہے ۔ہم اس مشن سے یکسر بھٹکے ہوئے ہیں جس مشن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔نہ تو ہمارا مشن انبیاء والا ہے اورنہ ہی راستہ انبیاء والا ہے جس کا نتیجہ مسلم معاشروں کی تباہی وبربادی ، خستہ حالی ، غیروں کی تقلید ،کم ہمتی ،خوداعتمادی میں کمی ،مزاج میںغیر پختگی اور نہ جانے اسی طرح کی کتنی خامیوں کی شکل میںآج ہمارے سامنے ہے ۔
    سجدے تو ہم اللہ تعالیٰ کو روز کرتے ہیں مگر ان سجدوں کے تقاضوں کو پورا کبھی نہیں کرتے ،ان سجدوں ہی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام امور کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے کا اہتمام کریں ،ان سجدوں ہی کاتقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے کردار وگفتار کو سوارنے کی ہمہ تن کوشش کریں ،خود کو مثالی مسلمان بنائیں ،ایسا مسلمان جو لوگوں سے معاملات کرے تو حسن اخلاق کاپیکر ہو،معاملات فہمی اس کے کردار کا حصہ ہو ،نرم خوئی اس کی عادت و اطوارمیں شامل ہو ،ایمانداری اس کی پہچان ہو،نماز کی ادائیگی میں کھرا ہونے کے ساتھ ساتھ بندوں کے ساتھ کئے جانے والے معاملات میں بھی وہ کھرا ہو ۔
    موجو دہ مسلم معاشروں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ نماز کے پابند ہوتے ہیں ان کی اکثر یت بندوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندنہیں ہوتی اور جو مسلمان نماز کی پابندیوں سے قاصر ہیں وہ لوگ خود کو یہ کہہ کر ’’ ہم تو گنہگار ،سیاہ کار ہیں ہمارا کیا! ‘‘ مزید غیر شرعی ،غیر اخلاقی کاموں کے مرتکب ہوجاتے ہیںجبکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک کرکے یہ گمان کرتے ہیں کہ نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے معافی مانگ لیں گے تو اس بدسلوکی کے برے اثرات ان کے نامہ اعمال سے زائل کردیئے جائیں گے جبکہ ان خوش گمان نمازیوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں ہونی چائیے کہ نماز کا ادا کرنا حقوق اللہ میں ہے جبکہ کسی انسان کو تکلیف دینا ، اس کو نقصان پہنچانا حقوق العباد میں آتا ہے ۔یہودی و عیسائی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ جنت انہی کیلئے ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ جنت ان لوگوں کو ملتی ہے جو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان و مال اور عزت سے نہیں کھیلتے ۔
     ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ضائع کرنے سے سخت گریز کرنا چاہئے حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔کسی بھی شخص پر ظلم نہیںکرنا چاہئے۔ حلال خور بن کر تندرست اور پُرامن زندگی گزارنا ایک اچھے اور سچے مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے ۔
    بندوں سے معاملات کی ابتداء گفتگو سے ہوتی ہے اور اچھی گفتگوبھی صدقہ ہے ۔جس اللہ کے سامنے ہم خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیںاسی اللہ نے ہمیں صلہ رحمی کا بھی حکم دیا ہے ،اللہ کو کئے جانے والے سجدے بھی اسی وقت بارگاہِ خالق عرش وسما کے نزدیک قبول ہوتے ہیں جب ہم بندوں کا حق سلب نہیں کرتے ،انھیں تکلیف نہیں پہنچاتے ۔
    اللہ کیلئے پڑھی جانے والی سچی نماز اور وفادار ی والے سجدوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہر وقت ہر حال میں اللہ کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو قانونِ الہٰی کے خلاف ہو۔ہماری ہر جنبش اس حد کے اندر ہو جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کی ہے۔ہمارا ہر فعل اس طریقہ کے مطابق ہو جو اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے۔
    اس طرز پر جو زندگی ہم بسر کریں گے وہ پوری کی پوری عبادت شمار ہوگی۔ایسی زندگی میں ہمارا سونا بھی عبادت ہے اور جاگنا بھی،کھانا بھی عبادت ہے اور پینا بھی،چلنا پھرنا بھی عبادت ہے اور بات کرنا بھی حتیٰ کہ اپنی بیوی کے پاس جانا اور اپنے بچے کو پیار کرنا بھی عبادت ہے اور اگر ہم زندگی کے تمام امور کو انجام دینے میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا لحاظ کریں اور زندگی میں ہر قدم یہ دیکھ کر چلیں کہ اللہ کے نزدیک جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے ،حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے ،فرض کیا ہے اور منع کس چیز سے کیا گیا ہے ،کس چیز سے اللہ  تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور کس چیز سے ناراض ہوتا ہے،تو یقین جانئے ہماری انفرادی،ازدواجی ،سماجی غرض کہ ہرطرح کی الجھنیں ،پریشانیاں ،ناچاقیاں،مسائل ،بیماریاں ،بے اطمینانیاں ،ذلت ،رسوائی سب کی سب اللہ کے حکم سے جادوئی انداز میں ختم ہوجائیں گی۔
    ہم روزی کمانے کے لیے نکلتے ہیں،اس کام میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں حرام کا مال آسانی کے ساتھ ہمیں مل سکتا ہے۔اگر ہم نے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر وہ مال نہ لیا اور صرف حلال کی روٹی کما کر لائے تو یہ جتنا وقت ہم نے روٹی کمانے میں صرف کیا یہ سب عبادت تھا اور روٹی گھر لا کر جو ہم نے خود کھائی اور اپنے بیوی بچوں اور اللہ کے مقرر کیے ہوئے دوسرے حصہ داروں کو کھلائی ان سب پر اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔
    افسوس کہ آج ہم نے عبادت کے صحیح اور حقیقی مفہوم کو یکسر بھلا دیاہے اورہم نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا ہے اور سمجھ لیا ہے کہ بس انہی اعمال کو انجام دینا عبادت ہے اور انہی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔عوام نے اپنے اوقات میں چند لمحے
 اللہ کی عبادت کے نام پر نماز اور سجدوں کے لیے مختص کرکے باقی تمام اوقات کو عبادت سے آزاد کرلیا۔اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام حیات اور اس کے سکھائے ہوئے قوانین کی ہر ہر شق کی خلاف ورزی کررہے ہیں ۔حدود اللہ میں سے ایک ایک حد کو توڑنے پرآمادہ ہیںجبکہ 5 وقت کی نماز،قرآن کی تلاوت ، ایک مرتبہ حج کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن گئے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ نے تو اپنے کلام میں عملِ صالح کرنے والوں کو زمین کی خلافت دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے میں پورا ہے لیکن اپنی اِن عبادات کے باوجود ہمیں نہ اس زمین کی خلافت حاصل ہے نہ ہمارے دین کو تمکن نصیب ہے اور نہ ہی خوف کے بدلے امن میسر ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم عبادت گزار نہیں بلکہ تارکِ عبادت ہیں اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے جس نے ہمیں دنیا میں بے یارو مددگار چھوڑ رکھا ہے ۔ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایسے ہیںجو دین اسلام کے کچھ احکامات پر جتنی مضبوطی سے عمل پیرا ہیںتو دیگر احکامات پر اتنی ہی شدت سے غفلت کا شکار ہیں ۔حقوق العباد کی ادائیگی میں چست  تو حقوق العباد میں نہایت سست ہیں۔حقوق العباد حد درجہ پرواہ کرنے والے ہیں تو حقوق اللہ کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے غلط انداز سے امید لگاکر غفلت سے دوچار ہیں ۔
    جب تک ہم اللہ کے احکامات کی پیر وی میں توازن اور میانہ روی سے کام نہیں لینگے، تب تک نہ تو ہمارے سجدے ،اللہ سے وفاوالے سجدے کہلانے کے لائق ہوں گے اور نہ ہی ہماری تمام تر عبادتیں اللہ کا حق اور اس کا شکر ادا کرنے کے قابل ہوں گی ۔
مزید پڑھیں:- - - - -سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ، حج بیت اللہ

شیئر: