ایک امیر صوبے میں جہالت کی فراوانی
گزشتہ کالم میں یہ رونا رویا گیا کہ عالمی تعلیمی ریڈار پر پاکستان کی پسماندگی کس شاندار طریقے سے چمک رہی ہے اور بلوچستان کے تعلیمی بلیک ہول میں اربوں روپے جھونکنے کے باوجود سو میں سے ستر بچے ا سکول سے باہر ہیں۔
مگر بلوچستان سے متصل صوبہ سندھ تو غریب یا نیم گنجان صوبہ نہیں۔یہاں سرکاری کاغذات کو دیکھا جائے تو تھر جیسا پسماندہ ضلع بھی آ کسفرڈ اور کیمبرج کو مات کر رہا ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم کے ریکارڈ میں تھر کے ایک گاؤں واہوی دھورا میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کل ملا کے63 اسکول ہیں۔مگر واہوی دھورا میں ایک کمرے پر مشتمل بنداسکول سے متصل گھر کے بچے سے جب پوچھا گیا کہ اسکول بند کیوں ہے تو اس بچے نے کہا کون سا اسکول ؟ میںتو ساتھ والے گاؤں کے اسکول میں پڑھنے جاتا ہوں۔
اگر محکمہ فروغِ جہالت کے دعووں کو ایک جانب رکھ دیا جائے تو درحقیقت سندھ جو وفاقِ پاکستان کی آدھی آمدنی اور مالیاتی وسائیل فراہم کرتا ہے وہاں ملکی و بین الاقوامی اداروں کے سروے کے سبب تصویر یوں ہے کہ معیارِ تعلیم کے اعتبار سے سندھ سے نیچے صرف فاٹا اور بلوچستان ہیں۔جس سندھ دھرتی کے تحفظ کے لئے ہر کوئی کٹ مرنے اور خون کا آخری قطرہ بہانے کو تیار ہے ( پہلا قطرہ بہانے کو کوئی تیار نہیں )۔اسی سندھ دھرتی کے56 فیصد بچے پرائمری سکول جاتے ہی نہیں اور جو جاتے ہیں ان میں سے بھی صرف آدھے پانچویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں۔اور ان بچوں کو کیا پڑھایا جاتا ہے ؟ اس بارے میں الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق پرائمری کے چھہتر فیصد بچے انگریزی کا ایک جملہ نہیں لکھ سکتے۔55 فیصد بچے اردو کی کوئی ایک مختصر سی نصابی کہانی بھی پوری نہیں پڑھ سکتے۔ 65 فیصد بچے یہ نہیں بتا سکتے کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں یا دو میں سے دو نکالو تو کتنے بچتے ہیں۔
کہنے کو سندھ میں 46 ہزار سے زائد پرائمری سکولوں میں ایک لاکھ 44 ہزار اساتذہ نئی نسل کو ’’ تے لیم ’’ دینے پر مامور ہیں۔ان میں سے ساڑھے19 ہزار اسکول ایک استاد کے بل پر چل رہے ہیں۔100 میں سے27 اسکولوں میں چار بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری ، پینیکا صاف پانی ، بجلی اور بیت الخلا میسر ہے۔100میں سے73 اسکول لڑکوں کے لئے اور23 لڑکیوں کے لئے ہیں حالانکہ لڑکے اور لڑکیوں کی آبادی آدھوں آدھ ہے۔
مگر سارا قصور صرف حکومت یا ’’ محکمہ تے لیم ’’ کا نہیں۔اگر تھر کی مثال لے لیں جہاں کے ایک گاؤں واہوی دھورا میں63 اسکول پائے جانے کا عالمی ریکارڈ موجود ہے۔اسی تھر اور پھر دیگر اضلاع کے لوگوں نے جب سرکاری بازی گری دیکھی تو اپنی سادہ لوحی ترک کرکے خود بھی چمتکاری ہوگئے۔کئی جگہ ایسا بھی ہوا کہ محکمہ تعلیم کو خبر تک نہیں اور مقامی ایم پی اے یا ایم این انے نے سیاسی رشوت کے طور پر لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کیلئے اپنے ترقیاتی فنڈ سے ایک بلڈنگ بنوا کر اسے اسکول کا نام دے دیا اور پھر اس اسکول کو چلانے کی ٹوپی محکمہ تعلیم کو پہنا دی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتہائی پسماندہ اضلاع میں جب بچوں کا انرولمنٹ بڑھانے کے لئے پرائمری کے بچوں کو گندم اور خوردنی تیل کا راشن دینا شروع کیا تو اسکول والوں نے زیادہ سے زیادہ راشن ہتھیانے کے لئے بچوں کا جعلی انرولمنٹ شروع کردیا۔کئی جگہ یہ بھی ہوا کہ گاؤں والوں نے محکمہ تعلیم کو یقین دلایا کہ اگر ہمیں ایک عمارت بنا دو تو استاد کی تنخواہ ہم اپنے پلے سے دیا کریں گے۔مگر تعلیمی اوطاق بننے کے چند ماہ بعد گاؤں والوں کو بھی اپنا وعدہ بھول گیا ، ٹیچر نے بھی کہیں اور نوکری پکڑ لی اور خالی اوطاق تین پتی کا جوا کھیلنے یا چرس نوشی کے لئے استعمال ہونے لگا۔کئی جگہ یہ بھی ہوا کہ اسکول کا انتظام تسلی بخش نہ ہونے پر محکمہ تعلیم نے اسکول کی دیکھ بھال کے لئے مقامی معززین پر مشتمل ایک مینجمنٹ کمیٹی بنا دی اوراسکول کی معمولی مرمت و بنیادی دیکھ بھال اور صفائی کے لئے 20 ہزار روپے سالانہ کا بجٹ بھی مینیجمنٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔جب یہ بجٹ آپس میں بٹ بٹا گیا تو مینیجمنٹ کمیٹی بھی فوت ہوگئی۔مگر اسی ماحول میں کچھ انفرادی دیوانے اور مقامی این جی اوز اپنے اپنے طور پر بچوں کو تعلیم دینے کے لئے ہمت ہارے بغیر کوشاں ہیں۔
یہ محض سندھ کے دیہی علاقوں کی کہانی نہیں۔شہری علاقوں کا حال دیکھنا ہو تو کراچی دیکھ لیں۔گزشتہ دور میں کئی سرکاری اسکول لینڈ مافیا اور چائنا کٹنگ کی نذر ہو گئے۔البتہ ایسی بلڈنگیں ضرور ملیں گی جن میں 3،3 سرکاری اسکول ٹھنسے ہوئے ہوں گے۔یعنی ان اسکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ نے اپنی مرضی سے لمبے فاصلوں پر قائم اسکولوں کو ایک ہی بلڈنگ میں طلب کر لیا۔جیسے کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک ولیج اور ہاکس بے کا ایک ایک اسکول دراصل پندرہ سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ماری پور میں شفٹ کر دیا گیا۔یعنی اسکول کمیونٹی کے قریب لانے کے بجائے کمیونٹی کو اسکول کا تعاقب کرنے پر لگا دیا گیا۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حالات قدرے غنیمت ہیں۔خیبر پختون خوا میں اگرچہ لگ بھگ ساڑھے5 ہزار اسکول ایک کمرے اور ایک استاد پر مشتمل ہیں لیکن سابق صوبائی حکومت نے ان کی انسپکشن کے لئے عملے کو سمارٹ فونز فراہم کرنے کی سکیم وضع کی تاکہ وہ موقع پر تصویر کھینچ سکیں کہ استاد ہے یا نہیں۔ہے تو کیا کر رہا ہے اور بچے پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔پنجاب میں سابق سرکار کا دعوی ہے کہ80 فیصد پرائمری اسکولوں کو چار بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری ، صاف پانی ، بجلی اور بیت الخلا کی سہولتیں فراہم کی جاچکی ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت تعلیم اور صحت جیسے غیر سیاسی بے ضرر شعبوں میں گڈ گورننس کا اصول لاگو کرنا چاہے تواسے کس نے روک رکھا ہے ؟ فوج نے ؟ آئی ایس آئی نے ؟ را نے ؟ امریکہ نے ؟ یا پھر بے حس بدنئیتی نے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔