Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشتاق یوسفی نے کم لکھا مگر خوب لکھا

سابق سفیر پاکستان ۔منظورالحق
اُردو طنز و مزاح کے نصف النہار پرایک طویل عرصے تک چمکنے والے خورشید ِجہاں تاب، مشتاق احمد یوسفی،20 جون 2018ءکو راہی ملکِ عدم ہوئے۔اُن کے بارے میں ظہیر فتح پوری نے کہا تھا کہ ©”ہم اُردو مزاح کے عہدِیوسفی میں جی رہے ہیں“ اور ابن انشا نے لکھا تھا کہ ”اگر مزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کانام ہے“۔بے شک ، مشتا ق یوسفی ایک شخص کا نہیں، ایک عہد کا نام ہے۔کسی نے ان کی رحلت پہ لکھا کہ اب ہم عہدِ یوسفی میں نہیں رہے۔اس کا جواب عطاءا لحق قاسمی نے یوں دیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہُوا کہ اُن کا عہد اُن کے خاکی وجود تک ہی تھا۔ وہ گئے تو اپنا عہد بھی ساتھ لے گئے۔قاسمی صاحب کی بات دل کو لگتی ہے کہ مشتاق یوسفی اپنا عہد اپنی تصانیف کی شکل میں ہمارے پاس چھوڑ گئے ۔ چراغ تلے، آبِ گُم، زَرگزَشَت اور شامِ شعرِ یاراں جیسی مایہ ناز کتابوں کا مصنف اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک اُردو اَدب پڑھنے والے موجو د ہیں۔
مشتاق یوسفی 1923ءمیں را جستھان میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد عبدالکریم یوسف زئی پختون ہونے کے ناتے اپنے نام کے ساتھ یوسفی لکھتے تھے۔ اسی حوالے سے مشتا ق احمد بھی یوسفی ہو گئے۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی کرنے کے بعد انڈین سول سروس سے منسلک ہو ئے لیکن 1950ءمیں کراچی آئے اوریہیں کے ہو رہے۔ اُنہوں نے بینک میں ملازمت اختیار کی اور 1990ءمیں ریٹائرہوئے۔ اُن کاپہلا مضمون ’صنف ِلاغر‘ ایک ادبی ماہنامے میں 1955ءمیں شائع ہوا۔ اُنکے انشائیوں اور مضا مین کا پہلامجموعہ ’چراغ تلے‘ کے نام سے 1961ءمیں شائع ہوا۔ اُن کی دوسری کتابیں خاکم بدہن 1970ءمیں، زرگزشت 1976ءمیں او ر شام شعر یاران 2014ءمیں شائع ہوئیں۔ اُنہوں نے اگرچہ کم لکھا لیکن بہت خوب لکھا۔ 
مزاح لکھنے والے کو خصوصی طور پر دو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایک تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا اور دوسری یہ کہ کسی کو اُس کی خامیوں کی طرف متوجہ کرنا اس کی دل شکنی کئے بغیر۔ مشتاق یوسفی اِن دونوں مقاصد میںکامیاب رہے ہیں ۔ اُنہوں نے کسی کی دل آزاری کی اور نہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے دیا۔ اس لئے کہ یوسفی کے طنز میں محبت ہے تحقیر نہیں ۔بقول ضمیر جعفری ”یوسفی کی جس اَدا پر میں خاص فریفتہ ہوں، وہ اُس کی اتھاہ محبت ہے۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں“ ۔مشتاق یوسفی معاشرے کی کمزوری، کج روی اور کوتاہی پر طنز کے تیر پھینکتے ہیںلیکن اس انداز سے کہ وہ طبیب کے نشتر کی طرح علاج اور اصلاح کاباعث بنے نہ کہ گزندپہنچائے۔ اُن کے الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی ساخت اسطرح ہوتی ہے کہ تیرکھا کے بھی کوئی بُرا نہیں مناتا ۔ اُن کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہوتا۔ وہ چراغ تلے کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ”اپنے علاوہ کسی اور کی اصلاح و فہمائش مقصود ہو توروسیاہ “۔ ضمیر جعفری نے لکھا ہے کہ ”یوسفی دور مار توپ ہیں مگر اس توپ کا گولہ بھی کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے ۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں“۔
مشتاق یوسفی خود لکھتے ہیں کہ ”مزاح نگار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ہنسی ہنسی میں اس طرح کہہ جاتا ہے کہ سننے والے کو بھی بہت بعد میں خبر ہوتی ہے“۔وہ زرگزشت کے ابتدائیہ میںاِبن انشاکی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ ” بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سونے میں مسکراتا ہے“۔ویسے یہی حال مشتاق یوسفی کے قاری کا بھی ہوتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن نقوی ”یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“۔ یہ کمال مشتاق یوسفی کی تحریروں میں ہی ملتا ہے ۔
اپنی دوسری تصنیف زرگزشت میں مشتاق یوسفی نے لکھا کہ ”ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اَب انسان میں اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ نہیں رہا اور دوسروں پر ہنسنے سے ڈر لگتا ہے“۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں جیسے جیسے تصنع آتا گیا، مروت ختم ہوتی گئی، رکھ رکھاﺅ اور معاشرتی قدریں زوال پذیر ہوتی گئیں، نہ تو پہلے جیسی رواداری رہی ،نہ وضع داری۔ اِن حالات میں دوسروں پر ہنسنا بھی آسان نہیں اور اَپنے آپ پر ہنسنا تو بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔ شاید اِسی لئے مشتاق یوسفی اکثرو بیشتر طنز کو بھی مزاح کا خوبصورت پیرھن زیب تن کرا کے پیش کرتے اور یہی اُن کی بڑی کامیابی تھی ۔ جہاں تک اپنے آپ پر ہنسنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں اُنہوں نے اپنی ہی مثال قائم کی۔ چراغ تلے میں اپنے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ”مولا کا بڑا کرم ہے کہ ڈاکٹر نہ بن سکا ورنہ اتنی خراب صحت رکھنے والے ڈاکٹر کے پاس کون بھٹکتا۔ ساری عمر کان میں اسٹیتھواسکوپ لگائے اپنے ہی دل کی دھڑکنیں سُنتے گزرتی“۔ بینک میں اَپنی ملازمت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ”اگر آپ کو انکشافِ احوال واقعی پراصرار ہے تو مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ 1974ءمیں میرے بینک کا پریزیڈنٹ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ جس انگریز جنرل منیجر نے 1950ءمیںانٹرویو کر کے مجھے بینک میں ملازم رکھاوہ اُس وقت نشے میں تھا۔ اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ نشے کے نتائج کتنے دور رس ہوتے ہیں“۔ اس طرح اُنہوں نے ہمیں اپنے اُوپر ہنسنے کا حوصلہ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اَپنے آپ پر ہنسنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہ ہر ایک نہیں کر سکتا۔اکثر مزاح نگاروں کے مزاح کو سمجھنے اور اُس سے محظوظ ہونے کے لئے مصنف کے ساتھ دو قدم چلنا پڑتا ہے۔ اُس کی تحریر کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا پڑتا ہے۔ تب اس کامزاح سمجھ میں آتاہے لیکن مشتا ق یوسفی کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو فوراً اپنے سحر میںلے لیتے ہیں اور اپنی بات سمجھادیتے ہیں۔اُن کے پہلے لفظ کی ادائیگی کے ساتھ قاری اُن کا ہم رکاب ہو جاتا ہے اور تحریر کا لطف اُٹھانے لگتا ہے۔ وہ الفاظ سے مزاح پیدا کرتے ہیں جیسے فارن آفس کو فوراً آفس کہنا۔ وہ جملوں میں مزاح پیدا کرتے ہیں جیسے آبِ گُم میں اپنا خاکہ اس طرح پیش کرتے ہیں:
”حلیہ: اپنے آپ پر پڑا ہوں“ یا ”پیشانی اور سر کی حدِ فاصل اُڑ چکی ہے لہٰذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہا ں سے شروع کروں۔ناک میں بذاتِ قطعی کوئی نقص نہیں مگر بعض دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہے“ اور ” وزن، اور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں“ ۔
اپنے ہی بارے میں لکھتے ہیں کہ ”خوشبوﺅں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرعوب ہے“ یا ”گانے سے بھی عشق ہے، اس وجہ سے ریڈیو نہیں سُنتا“۔ اُن کے فقروں میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہری معنویت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”لیکن غور کیجئے تو عمر بھی ضمیر اور جوتے کی مانند ہے، جن کی موجودگی کا احساس اُس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ تکلیف نہ دینے لگیں“ یا ”مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کر دے تو سمجھ میںنہیں آتا، ختم کیسے کرے“ یا ”دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ نہ آئے، تو دوگنا مزا آتا ہے“ یا ”انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے“۔
مشتاق یوسفی جب کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں توکوئی فقرہ یا لفظ مزاح سے خالی نہیں ہوتا جیسے ”مہمان آئے، ماما نے کہا جا کے مہمانوں سے کھانے کا پوچھو! میں نے پوچھا انکل، کھانا کھا کے آئے ہیں یا گھر جا کے کھائیں گے“۔اس کے علاوہ اشعار کی پیروڈی بھی بہت خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ کیجئے:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 
مشتا ق یوسفی 97سال ہمارے درمیان رہے۔ انہوں نے بھر پور زندگی گزاری۔جن سے ملے اُسکے چہرے پرمسکراہٹ بکھیری، جس محفل میں بیٹھے اُسے زعفران زار بنا دیا۔اُن کا وجود تو ایک تحفہ تھا متفکر اور پریشان دلوں کے لئے، اُن کی کتابیں ہمیں اُن کے عدم وجود کا احساس نہیں ہونے د یں گی۔اُن کی زندگی اور کامیابی کو بھر پور انداز میں منانا چاہئے ۔بقول عطاءالحق قاسمی ”ہمارے پنجاب کے بعض دیہات میں ایک عجیب و غریب رسم ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی بزرگ طویل ا لعمری کے ساتھ بھر پور زندگی گزارتا ہے تو اس کی وفات پر بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں اور اس کے ورثاءمیت کے آگے بھنگڑے ڈالتے ہوئے اسے قبرستان تک لے کر جا تے ہیں“۔ مشتاق یوسفی اسی سلوک کے مستحق ہیں۔
 
 

شیئر: