اپوزیشن کا اتحاد ،برقرار رہے گا؟؟
***سجاد وریاہ***
حالیہ انتخابات کے بعدپاکستان کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے ،پاکستان کے سیاسی آسمان پر مسلسل30 سالوں سے چمکنے والے2 بڑی جماعتوں کے سورج کو ایک نئی جماعت کی چکا چوندروشنائی نے گہنا کے رکھ دیا ہے۔اب تحریکِ انصاف کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔تحریک انصاف کے سورج کی کرنیں اپنے اندر امید ،خوشی اور روشن مستقبل کا احساس لیے ہوئے ہیں۔میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ تحریکِ انصاف کی مقبولیت اور کامیابی میں مخالف جماعتوں کی نا اہلی اور کرپشن کا کردار زیادہ ہے ،تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد ہی ان پارٹیوں کی کرپشن کے خلاف جہاد کے نعرے پر رکھی تھی۔22 سالہ جدوجہد کے بعد عمران خان نے کرپٹ پارٹیوں کو چت کر دیا ہے۔پاکستان کی سیاست میں کرپشن کی بنیاد نواز شریف نے رکھی ۔انہوں نے چھانگا مانگا سیاست کا آغاز کیا۔مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا اور بینظیر اور آصف زرداری پر مقدمات قائم کیے۔یعنی ان دو سیاسی جماعتوں نے ملک و قوم کی خدمت کی بجائے ریاستی وسائل خو د کو مضبوط اور مخالف کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کئے۔جنرل مشرف کے ’ کو‘کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے قریب آئیں اور پھر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔اس معاہدے میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنی شرائط منوائیں اور ن لیگ پیپلز پارٹی کو اقتدار دینے پر راضی ہو گئی۔ان دو جماعتوں نے حکومت کے لئے اپنی اپنی باری حاصل کرنے کے لئے فارمولا طے کیا۔جس میں پنجاب اور سندھ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور مرکز میں باری باری حکومت کرنے کا فارمولا طے ہوا۔اس فارمولے کی بنیادی شِق یہ تھی کہ فوج کے خلاف متحد رہیں گے اور اسٹیبلشمینٹ کو کمزور کیا جائے گا۔اس بہتی گنگا میں ایک مولانا نے خوب ہاتھ دھوئے ۔ ان دو جماعتوں کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور مال بنانے کی ہوس نے پوری قوم کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے اور ملکی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
اب کے بار قوم ان کی چالاکیوں کو سمجھ گئی ہے ،قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ان کے جھوٹے نعروںکو جھٹلا دیا ہے ۔اب یہ جماعتیں اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر نکل چکی ہیں۔پہلا موقع ہے کہ زرداری اور نواز شریف کی پارٹیاں اقتدار میں نہیں۔اب ان کو حزب اختلاف میں بیٹھنا ہو گا۔اب یہ ناکام جماعتوں کا گروہ ہے جو مقتدر جماعت کو مشکلات میں ڈالے رکھنے کے لیے متحد ہوا ہے ،ان کی شدید خواہش ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ناکام کیا جائے۔اگر تحریکِ انصاف اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان جماعتوں کا بوریا بستر مستقل گول ہونے کا خدشہ ہے۔کیوں کہ تحریکِ انصاف نے کے پی کے میں اپنی کارکردگی سے تمام مخالف جماعتوں کا صفایا کر دیا ہے۔ان میں جمعیت علماء اسلام ف کو سخت دھچکا لگا اور مولانا فضل الرحمان اپنی دو نشستوں پر بھی ہار گئے۔اسفند یار ولی خان بھی ہار گئے ان کی جماعت چند سیٹیں لے سکی۔یہ دونوں جماعتیں کارکردگی اور ایشوز کی سیاست نہیں کرتیں ،اے این پی پشتون قومیت اور جے یو آئی مسلک اور مدرسے کی سیاست کرتی ہے جس کو کے پی کے نے مسترد کردیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے شروع میں بہت سر گرمی دکھائی ،دھاندلی کا شور مچایااور مولانا نے حلف نہ اُٹھانے کی تجویز پیش کی ،جس پر دوسری جماعتیں متفق نہ ہو سکیں۔اپوزیشن اتحاد نے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ساتھ دھاندلی کا شور مچایا۔حا لانکہ الیکشن والے دن انتخابات کے ختم ہونے تک کوئی بے ضابطگی سامنے نہیں آئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد برقرار رہ پائے گا؟اپوزیشن جماعتوں کے مقاصد کیا ایک ہیں؟میری نظر میں یہ اپوزیشن کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا پائے گی،یہ اتحاد چوں چوں کا مربہ ہی ثابت ہوگاکیونکہ اس اتحاد کو انتہائی حد تک لے جانے میں صرف اور صرف مولانا سنجیدہ دکھائی دیتے ہیںجبکہ مسلم لیگ نواز کو ایک ڈھیلا ڈھالا احتجاج ہی سوٹ کرتا ہے۔ان کے احتجاج کا تعلق صرف نواز شریف کی ذات تک محدود رہے گا،اگر نواز شریف کو سہولیات ملتی رہیں اور شکنجہ ڈھیلا رہا تو مسلم لیگ ن ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ اپنے احتجاج کا سفر جاری رکھے گی اور کسی مناسب وقت کا انتظار کرے گی۔نواز شریف کی ناراضگی بھی شہباز شریف کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مصنوعی قسم کی بھڑکیں اور اچھل کود جاری رکھیں۔ان کے دھاندلی کے نعرے میں کوئی جان نہیں تھی۔ اس لئے خود ہی دم توڑ چکا ہے۔ان جماعتوں میں پیپلزپارٹی ہی واحد جماعت ہے جو بہت سمجھداری اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے پتے شو کر رہی ہے اور زرداری عمدگی سے کھیل رہے ہیں۔میں تو سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی انتہا تک نہیں جائے گی ۔اس کی کئی وجوہ ہیں۔پہلی یہ کہ سندھ میں پیپلزپارٹی نے حکومت چلانی ہے،جو کہ وفاق اور اسٹیبلیشمنٹ کے تعاون کے بغیر مشکل ہو جائے گا ،زرداری پر کرپشن کے الزامات ہیں اور کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں،جو پیپلز پارٹی کی قیادت کے سر پر لٹکتی تلوار کے مترادف ہیں ،سب سے اہم فیکٹر میں محسوس کر رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس بار اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانا چاہتی ہے تاکہ پیپلز پارٹی خود کو زندہ رکھ سکے ۔کیونکہ جتنی کامیابی ان کو ملی ہے شاید اس کے لئے وہ خو د بھی پُر امید نہیں تھے۔اب لگتا ہے کہ اس موقع کو اپنی کارکردگی سے اپنی موجودگی کا احساس دلائیں گے اور بلاول بھٹو بھی یقیناََ اپنی قیادت کاہنر آزمائیں گے۔میرا خیال ہے ان محرکات کے سبب ،پیپلز پارٹی بہت ہی محتاط اور محدود تعاون ہی ،متحدہ اپوزیشن کو فراہم کر پائے گی۔پیپلز پارٹی کا تعاون انتہائی مشروط ہوگا۔بلکہ میں تو پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کو ایک نقطے پر ہی مرکوز دیکھتا ہوں،وہ ہے زرداری کے خلاف کیسز ،اگر ان کیسز کی رفتار کو تیز کیا گیا تو پیپلز پارٹی اپنے لیڈر کی حمایت میں اپوزیشن اتحاد کو تعاون فراہم کرے گی ورنہ پیپلز پارٹی مطمئن ہے اسکو سندھ میں حکومت ملی ہے وہ کیوں اپنا وقت برباد کرے گی۔
اپوزیشن اتحاد ،میری نظر میں انتشار کا شکار ہو چکا ہے،وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ہی پیپلز پارٹی نے انتخاب میں حصہ نہ لے کر پیغام دیا تھا کہ وہ خود کو اپنی سوچ کے مطابق لے کر چلیں گے۔حالانکہ مولانافضل الرحمٰن نے پوری کوشش کی تھی کہ زرداری راضی ہو جائیں اور شہباز شریف کو ووٹ ڈال دیں۔ زرداری کی پوزیشن اس وقت بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے ان کا تعاون حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ضرورت بن چکا ہے۔اس لئے وہ بہت عمدہ اور محتاط چالیں چلتے نظر آ رہے ہیں۔اب ایک اور اختلاف ن لیگ اور پی پی کی قیادت میں سامنے آیا ہے ،پیپلز پارٹی نے چوہدری اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے جس کو ن لیگ نے مسترد کر دیا ہے،ن لیگ نے کہا ہے کہ صدارتی امیداوار کو پاکستان الائنس نامزد کرے گا جس کے لئے ۲۴ اگست کو اجلاس ہو گا ۔اعتزاز احسن کا نام واپس نہ لینے کی صورت میں ن لیگ قادر بلوچ کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرے گی۔میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار صرف اسی صورت میں تبدیل کرے گی جب اس کو جیت یقینی نظر آئے گی ورنہ وہ اپنے امیدوار کا نام واپس نہیں لے گی۔پیپلز پارٹی اگر چاہتی تو نامزد نہ کرتی مشورے سے کرتی لیکن پہلے نامزد کیا پھر تعاون مانگا۔وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ن لیگ بھی ایسا کر چکی ہے،پہلے شہباز شریف کو نامزد کیا پھر تعاون مانگا تو پیپلز پارٹی نے شہبازشریف کو تبدیل کرنے کی شرط رکھ دی جوقبول نہ ہو ئی ،اس طرح پی پی نے انتخابی عمل سے علیحدگی اختیار کیے رکھی۔میں سمجھتا ہوں یہ مجبوریوں، ضرورتوںاورسمجھوتوں سے بندھا اتحاد زیادہ دیر نہیں چل سکے گا ۔اگرحکومت کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھے گی تو میڈیا اور عوام حکومت کو مضبوط کریں گے اورکمزور اپوزیشن اتحاد بکھر جائے گا۔