Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکبانوں کو معاشی سفر میں شریک کیجئے

***سجاد وریاہ***
سعودی عرب میں سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سال رواں 2018ء کے ابتدائی 6ماہ کے دوران5لاکھ 12ہزار غیر ملکی ملازمین نجی اداروں سے فارغ کئے گئے ہیںجبکہ پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباَ َ2 لاکھ غیر ملکی ملازمین کو فارغ کیا گیاتھا۔2017ء کے دوران5 لاکھ ،86 ہزار غیر ملکیوں کو فارغ کیا گیا۔اس طرح ڈیڑھ برس کے دوران نجی اداروں سے فارغ کئے گئے غیر ملکی ملازمین کی تعداد11لاکھ تک پہنچ گئی۔جنرل کارپوریشن نے سعودی ملازمین کی تعداد کے بڑھنے کے حوالے سے اعداد وشمار بھی جاری کئے ہیں،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نجی کمپنیوں میں سعودی ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
سعودی عرب سے جانے والے پاکستانی ملازمین کی زیادہ تر تعداد ،مزدور طبقہ  اور ان لوگوںکی ہے جو آزاد ویزوں پر کام کر رہے تھے۔جبکہ ہنر مند لوگ کسی نہ کسی طرح خود کو ابھی تک ایڈجسٹ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔کاروباری طبقے پر اخراجات تو بڑھے ہیں لیکن وہ نسبتاََ محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔پاکستانی فیملیز کی ایک بڑی تعداد کو پاکستا ن واپس جانا پڑا ہے جس کی وجہ ٹیکسز کا نفاذ ہے۔ان فیمیلیز میں کئی تو ایسے بھی تھے جو سالہا سال سے یہاں مقیم تھے۔ان کی اولادیں بھی یہیں ایڈجسٹ ہو چکی تھیں لیکن اب کثیر افراد پر مشتمل خاندانوں کا یہاں رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو چکا ہے۔اب وہی فیملیز یہاں مقیم ہیں جن کے بچے کم ہیں یا پھر دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں اور اخراجات  پورا کر سکتے ہیں۔کاروباری طبقہ اور اچھی کمپنیوں کے ملازمین خود کو ایڈجسٹ کر جائیں گے۔پاکستانی فیمیلیز کی ایک کثیر تعداد ذہنی کوفت کا شکار ہے،ان کے لائف اسٹائل ایک عرصے سے سعودی عرب میں مقیم رہنے کے سبب پاکستان کے لائف اسٹائل اور ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا ،جس کی وجہ سے ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔ان تمام حالات کے مشاہدے کے مطابق یہی بات سمجھ آئی ہے کہ سعودی عرب سے جانے والے پاکستانی ،دوسرے عرب ممالک کا رُخ کر رہے ہیں ۔متحدہ عرب امارات،عمان،قطر اوربحرین کی طرف ان کا رجحان ہے۔لوگ پاکستان سے ہو کر نئی ملازمتوں کے لئے نئے ویزوں پر عرب ملکوں میں جا رہے ہیں ۔ڈاکٹرز،انجینئرز،بزنس مین اور سرمایہ دار طبقہ یورپ،آسٹریلیا اور کینیڈا میں امیگریشن لے چکے ہیں اور لے رہے ہیں۔یہ لوگ انتہائی ذہین،اعلی دماغ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو دوسرے ممالک میں مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں۔ان کی تربیت اس انداز میں ہو جاتی ہے کہ وہ پرسکون ماحول میں کام کرنا چاہتے ہیں ،سیاسی مداخلت اور بے جا روک ٹوک سے ان کی جان جاتی ہے۔اس لئے پاکستان جانے کی بجائے دوسرے ممالک میں نکل جاتے ہیں۔
سوال یہ کہ ان پاکستانیوں کا پاکستان میں دل کیوں نہیں لگتا ؟یہ لوگ پاکستان میں کاروبار کیوں نہیں کرتے؟کیا ان کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا جاسکتا جووہاں کاروبار کے لئے موزوں ہو؟ان کی شکایات کیا ہیں اور مسائل کیا ہیں ،جو رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔کیا نئے پاکستان کی نئی حکومت ان افراد کو باعزت طریقے سے پاکستان میں کاروبارکرنے کے لئے قائل نہیں کر سکتی؟کیا ان کو رشوت،سیاسی مداخلت،  بیوروکریسی اور بد امنی سے پاک ماحول نہیں دیا جا سکتا جس میں آزادانہ کاروبار کر سکیں؟میرے خیال میں نئی حکومت کو اس جانب ضرور توجہ دینی چاہئے۔کیونکہ تحریکِ انصاف کی حکومت سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کی آواز بھی اُٹھاتی رہی ہے اس لئے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کام کرنے کیلئے پُرامن ماحول فراہم کیا جائے۔اس سے حکومت اور ملک دونوں کو فائدہ حاصل ہو گا۔ملک میں سرمایہ آئے گا ،صنعت اور فیکٹریوں کی شکل میں سرمایہ کاری ہو گی جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ اس کے بعد حکومت کے لئے آسان ہو گا کہ اپنے معاشی اہداف بھی پورے کر سکے گی۔ماضی کی حکومتیں کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایمنیسٹی کی سہولت فراہم کرتی رہی ہیں ،جس کا فائدہ عارضی ہوتا ہے ،جو کسی دیرپا سرمایہ کاری کی شکل اختیا ر نہیں کر پاتا اور نہ ہی اس سے عوام کے روزگار کی راہیں کھلتی ہیں۔جب روزگار نہیں ہوتا تو امن و امان کا مسئلہ رہتا ہے اور بے کار اور بے روزگار نوجوان ،دہشت گردی،اغوا کاری اور چوری چکاری جیسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جب حکومت کرپٹ افراد کو سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ کالا دھن سفید کر لیں تو محنت کش پاکستانیوں کو تو بہت عمدہ ماحول فراہم کرنا چاہئے۔اس حوالے سے کیا خدشات ہو سکتے ہیں اور ان کے حل کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں ،ہم اپنے طور پر ایک تجزیہ پیش کرتے ہیں۔میری نظر میں سب سے پہلی ضرورت بجلی کی مستقل فراہمی ہے،لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتیں بند ہونگی تو وہ اپنے اہداف پورے نہیں کر پائیں گے،جس سے مالکان کا نقصان ہو سکتا ہے۔دوسرا مسئلہ بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت کے ساتھ رشوت کا کاروبار بھی سرمایہ کار کی دل شکنی کا باعث بنتا ہے ۔اس کو روکنے کی امید ہم تحریک انصاف کی شفاف حکومت سے تو رکھ ہی سکتے ہیں۔تیسرا مسئلہ عدالتی معاملات کا ہے کہ کاروباری معاملات جب عدالت میں جاتے ہیں تو کئی سال ان کے فیصلے نہیں ہو تے جس سے کاروبار کو بری طرح نقصان پہنچتا ہے۔اس طرح عدالتی انصاف کی تاخیر در اصل معاشرتی ناانصافی اور محرومی کو جنم دیتی ہے جو ایک طویل ،جرائم در جرائم سلسلے کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بالآخر حکومت کے لئے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ان پاکستانیوں سے مدد اور چندے کی اپیل کرنے کی بجائے ان پاکستانیوں کو اپنے معاشی سفر میں شریکِ کار بنانے کے لئے اقدامات کیے جائیں،ان کو سیکورٹی فراہم کی جائے اور اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ون ونڈو آپریشن کی سہولت کا آغاز کیا جائے۔ باقاعدہ شہر سے دور صنعتی زون بنائے جائیں اور ان کو بجلی کی مسلسل اور مستقل فراہمی یقینی بنائی جائے اور ان کی مدد کرنے کے لئے حکومت ایک سہولت کار ی کا دفتر قائم کرے۔عدالتی فیصلوں کے لئے کم سے کم مدت کا تعین کیا جائے تاکہ بلاوجہ عدالتی معاملات تاخیر کا شکار نہ ہوں ۔پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان اپنے دفتر میں ایک معاشی ونڈو قائم کریں ،جہاں سے تمام معاشی سرکاری مشینری کی نگرانی کی جا سکے۔اسی دفتر میں شکایات سیل قائم کیا جائے ۔ اس شکایات سیل کا نمبر مشتہر کر دیا جائے ،جہاں ہاٹ لائن بھی ہو کہ اس کے ذریعے ایمرجنسی کی صورت میں رابطہ کیا  جاسکے۔ابھی تک ملک میں سرمایہ کاری کا رجحان صرف پراپرٹی کی خریدوفروخت تک ہے جس سے سرمائے کی ذخیرہ اندوزی ہو جاتی ہے ،مناسب سرکولیشن نہیں ہوتی۔میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،صرف باتیں کرنے کا وقت گزر چکا ہے جو کہ سمندر پار پاکستانیوں بالخصوص سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے لئے اقدامات کر کے ایک اعتماد کی فضا قائم کر سکتی ہے۔ملک میں معیشت بھی بہتر ہو گی حکومت کی نیک نامی بھی ہو گی۔
 

شیئر: