Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولین ذمہ داری گھر ، بچے اور شوہر ، باقی سب بعد میں، عائشہ منصور

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
رب کریم نے انسانوں کو دنیا میں بہترین مخلوق اور لائق تعظیم و عزت بنانے کے ساتھ زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بناکر بھیجا ہے۔ اللہ کریم نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو احترام انسانیت اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتی ہے ، اس کی تسبیح کرتی ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر بجا لائے اور ہر مشکل گھڑی میں استقامت سے کام لے۔ یہی ایک مسلمان کا عقیدہ ہے۔ چاہے زندگی میں کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں انسان کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
زندگی نشیب وفراز کاہی نام ہے ۔ زندگی تو نام ہے کٹھن راستوں پر چلنے کا۔ ہر انسان کی زندگی میں جہاں مثبت چیزیں ہوتی ہیں وہیں منفی چیزیں بھی سامنے آتی ہیں مگر کمال اس میں ہے کہ وہ کیسے ان منفی حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ آج دنیا جن لوگوں کو انکی کامیابیوں و کامرانیوں کی وجہ سے پہچانتی ہے،یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان افرادکو اپنی زندگی میں کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہوگا،راہوں میں کتنے خار آئے ہونگے۔ ان کو کن کن بحرانوں سے گزرنا پڑا ہوگا، اتنی مشکلوں سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں کہ آج ان کے نام تاریخ میں رقم ہیں۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ،کانٹوں بھری راہ بھی ہے۔ جن پر چل کر انسان کے پاﺅں لہو لہان ہوجاتے ہیں۔
آج ہوا کے دوش پر ہماری مہمان عائشہ منصور ہیں ۔ اس من موہنی شخصیت سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر صرف مسکرائی تھیں۔ میں نے عائشہ سے پوچھا کہ آپ اردونیوز کا مطالعہ کرتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس جرےد ے کو باقاعدگی سے پڑھتی ہوں۔میرے شوہرہرروز دفتر سے واپسی پراردو نیوز خرید لاتے ہیں۔ اس میں دنیا بھر کی خبریں ہوتی ہیں۔ یہ جریدہ اپنے قارئین کی جس طرح خدمت کررہا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ خاص کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے انٹرویوز جودھنک کے صفحات کی زینت بنتے ہیں، ان کا تو جواب ہی نہیں۔ میں اردونیوز کی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا اور اس ہفتے میرا انتخاب کیا۔
عائشہ منصورنے بتایا کہ میرے والد کا نام سلمان احمد ہے اور انکا تعلق یوپی کے ایک شہر پرتاپ گڑھ سے ہے ۔ میری والدہ کا نام نسیم بانو ہے۔ میرے والد سرکاری افسر ہیں۔ میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی ۔بعد ازاں گریجویشن کرنے کے لئے فیض آباد یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑا کیونکہ یہی یونیورسٹی میرے گھر سے قریب تھی۔ میرے والدین تیار نہیں تھے مجھے دوسرے شہر بھیجنے کیلئے۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ میں گھر میں سب سے بڑی ہوں۔ اس ناتے سے گھر میں اپنے والدین کی لاڈلی بھی ہوں، خاص کر اپنے بابا کی۔ ان کے پیار نے میرے اندر بہت اعتماد پیدا کیا۔ بابا کے دیئے ہوئے اعتماد کا ہی ثمر ہے کہ میںزندگی میں آنے و الے ہرچیلنج کا سامنا کرسکتی ہوں۔ میں اسکول تک ہر سرگرمی میں حصہ لیتی رہی۔ میرا بچپن بہت ہی شاندار اور خوبصورت گزرا ۔ میں نے نہ صرف گڑیوں سے کھیلا بلکہ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بے انتہا تھا۔ اس لئے میں کتابیں پڑھا کرتی تھی۔اس کے علاوہ کھیل کود میں بھی اپنے بھائی بہن کا ساتھ دیتی اور ہمیشہ پڑھائی میں انکی مدد کرتی تھی۔ مجھے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں سے دلی لگاﺅہے۔
اسے بھی پڑھئے:کام، کام اور کام کو مقصد حیات بنایا،کامیاب بھی ہوئی، حلیمہ
یہاں میں ایک بات بتاتی چلوں کہ بابا نے مجھے اور میری چھوٹی بہن کو ایک ساتھ اسکول میں داخل کیاتھا اس لئے میری بہن نے بھی میرے ساتھ ہی اپنی پڑھائی مکمل کی۔ اکثر لوگ ہم دونوں کو جڑواں سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں شروع سے ہی ساتھ رہتے، کہیں بھی جانا ہوتا تو ہم دونوں ساتھ ہی ہوتے اور اتفاق دیکھئے کہ اس کی شادی بھی میری شادی کے فوری بعد ہوگئی اور یوں وہ بھی شادی کرکے دہلی چلی گئی۔ میری چھوٹی بہن ابھی اسکول میں ہے۔ 
وہ کہتے ہیں ناں کہ لڑکیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں لہٰذا جب میں12ویں جماعت کاامتحان دے رہی تھی تومیرا رشتہ آیا جو والدین نے قبول کرلیا۔ طے پایا کہ امتحانات ختم ہوتے ہی شادی کردی جائیگی کیونکہ میرے شوہر گھر میں سب سے چھوٹے ہیں۔ انکے والد کی طبیعت کافی خراب تھی ۔انکی یہ خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کی خوشی دیکھ لوں ۔میرے شوہر سب سے چھوٹے بیٹے ہونے کی وجہ سے والدکے لاڈلے تھے اور ان کے والد بھی ان کو بہت پیا ر کرتے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میرے بابا نے فوراً ہامی بھر لی اور بنا کچھ دیکھے بنا کچھ کہے انکی ساری باتیں مانتے گئے کیونکہ میرے سسر کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا ۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں ہونے لگیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جو تاریخ میرے سسر نے دی تھی، شادی تو اسی تاریخ کو ہوئی مگر میرے سسر کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کوبیٹے کی شادی دیکھنا نصیب نہیں ہوسکی اور میری شادی ان کے انتقال کے 5دن بعد بے حدسادگی سے انجام پائی۔ بہرحال شادی انسان کے لئے ایک نئی زندگی کا آغاز ثابت ہوتی ہے، اس سے زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں ،سو میری زندگی میں بھی آئیں۔
الحمد للہ! میرے سسرال والے بہت ہی اچھے او رخیال رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے میرا ہر قدم پر ساتھ دیا او رمیری رہنمائی کی۔ خاص طور پر میری ساس نے بہت ساتھ دیا۔ شادی کے بعد میں تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جس کی اجازت نہ صرف میرے شوہر نے دی بلکہ میرے سسرال والوں نے بھی اس موقع پر بہت ساتھ دیا اور یوں میں اپنے میکے پرتاپ گڑھ واپس اپنے بابا کے گھر آگئی۔ فیض آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیکر اپنی تعلیم مکمل کی ۔ میرے ابو میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ میرے شوہر گزشتہ 10 سال سے سعودی عرب میں ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں مگر میں فوراً سعودی عرب نہیں آسکتی تھی اس لئے جب میری تعلیم مکمل ہوگئی تب میں یہاں آئی۔
محترمہ عائشہ نے بتایا کہ سسرا ل کانپور میں ہے اور ان کی 3نندیں ہیں جن کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ عائشہ کے شوہر منصور کے 2بڑے بھائی ہیں جو کانپور میں ہی ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میرے بابا سرکاری افسر ہیں، اس لئے ہمارے گھر میں پیسے کی اتنی کوئی ریل پیل بھی نہیں تھی مگر ہماری زندگی پرسکون اور خوشیوں بھری تھی ۔ والدین کا پیار اور پھر بہن بھائی کی محبت نے مل کر زندگی کو حسین بنادیا تھا۔ ویسے بھی والدین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اولاد کو خوشگوار اور بہتر ماحول فراہم کریں۔ اسکے لئے میرے ابو نے بہت محنت کی۔ دیکھا جائے تو انسان کی زندگی کا ہر دور اپنی جگہ خوبصورت اور حسین ہوتا ہے۔ ہر دور میں انسان اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ تجربہ حاصل کرتا ہے او رسیکھنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ بس مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی ایک اسٹیج ہے اور لوگ فنکار ۔ اس سے ہم کچھ نہ کچھ سبق حاصل کرتے ہی رہتے ہیں۔ 
عائشہ نے بتایا کہ میری ماں گو کہ ایک ہاﺅس وائف ہیں لیکن ایک مکمل گرہستن بھی ہیں۔ انہوں نے ہم بہنوں کو گھر گرہستی کے سارے گر سکھائے ۔ وہ اپنی والدہ کا ذکر بہت ہی محبت کے ساتھ اور جذباتی انداز میں کررہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ والدہ نے ہمیںیہ بھی سکھایا کہ عورت کی سب سے پہلی ذمہ داری اسکا گھر ،اس کے بچے اور شوہر ہوتا ہے ، باقی سب کام بعد میں،ان کے بعد ہی اسے کسی اور کی ذمہ داری اٹھانی چاہئے لیکن آج کے دور میںیہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں الجھ جاتے ہیں جو کسی طور بھی درست نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ پہلے اپنے فرائض کو مکمل کریں اور پھر اپنے مسائل پر بھی نظر رکھیں۔ عورت کو چاہئے کہ وہ گھر کا ماحول پرسکون بنائے۔
عائشہ منصور نے کہا کہ مملکت آکر مجھے بہت اچھا لگا۔میں سب سے پہلے مکہ مکرمہ گئی اور عمرہ ادا کیا اس کے بعد مدینہ منورہ گئی اور اللہ کریم کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اتنی بڑی سعادت نصیب فرمائی۔ عائشہ نے کہا کہ مجھے کوکنگ کا بھی بہت شوق ہے اس لئے میں ہر مرتبہ نئی ڈشیں بناتی رہتی ہوںاور لوگوں کو بھی اپنے گھر دعوت پر مدعو کرتی رہتی ہوں۔ اس لئے میں ٹی وی کے مختلف چینلز بھی دیکھتی ہوں اور مزے مزے کی ڈشیں گھر پر تیار کرتی ہوں۔ 
ہماری گفتگو ابھی جاری تھی کہ انکے شوہر محمد منصور صدیقی بھی تشریف لے آئے اور ہماری گفتگو میں شامل ہوگئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اردونیوز کیلئے انٹرویو ہورہا ہے تو انہیں بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ میں مشکور ہوں اردونیوز کا کہ مجھے بھی انہوں نے اپنی بات کہنے کا شرف بخشا۔اللہ پاک اس جریدے کو دن دگنی او ررات چوگنی ترقی عطا فرمائے،آمین۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور صاحب بھی بہت بااخلاق اور ملنسا ر ہیں جیسا کہ عائشہ پہلے بتا چکی ہیں کہ وہ 10سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں لہٰذا انہیں خود ہر قسم کے لذیذ کھانے بنانے آتے ہیں۔ انکا کہناہے کہ شریک سفر کو ہمیشہ اہمیت دینی چاہئے ۔ اس میں ہی گھرکا سکون پنہاںہے۔ ہمیں ازدواجی رشتے کے تقدس کو سمجھنا چاہئے۔ یہ وہ بندھن ہے جسے عزت و احترام دینے سے زندگی خوشگوار گزرتی ہے اور سفر حیات کسی مشکل کے بغیر پرسکون انداز میں رواں دواں رہتا ہے ۔
عائشہ کو ملنے کلنے اور روابط رکھنے کا بہت شوق ہے ۔اسی شوق کے تحت اکثر گھر پر پارٹیاں بھی کرتی ہیں اور مختلف قسم کے کھانے وہ خود تیار کرتی ہیں۔ انہیں گھر کو سجانے کا بھی شوق ہے ۔ اس امر کا اندازہ تو ہمیں گھر میں داخل ہوتے ہی ہوگیا تھا جسے انہوں نے انتہائی قرینے اور سلیقے سے سجا یاہوا تھا۔
انسان جہاں بھی پڑاﺅ ڈالے، بہتر انداز میں ڈالے۔ اس طرح زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔گھر کی سجاوٹ بھی ایک فن ہے جو ہر کوئی نہیں کر پاتا۔ گھر کی سجاوٹ ایسی چیز ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اوردل خوش ہوتا ہے اور بدلے میں دیکھنے والے تعریف کئے بناءنہیں رہ پاتے۔
جب شعر و شاعری کی بات ہوئی تو منصور صاحب نے کہا کہ مجھے شعر وشاعری کا شوق ہے لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا مگر مجھ سے زیادہ ذوق تو میری بیگم رکھتی ہیں۔ ہم دونوں اکثر اس طرح کی محافل میں شرکت کرتے ہیں۔ میری اہلیہ تو کتابیں پڑھنے کی بھی شوقین ہیں اس پر عائشہ نے کہا کہ مجھے بہت سے شعراءکا کلام پسند ہے جن میں فیض احمد فیض، پروین شاکر، غالب، علامہ اقبال وغیرہ شامل ہیں۔
ہماری فرمائش پرمحترمہ عائشہ نے اپنی پسند کے اشعار نذر کئے ، آپ بھی ملاحظہ کریں:
وہ فریب خوردہ شاہیں کو پلاہوکر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی
نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ نازی
آخر میں دونوں نے کہا کہ رشتوں میں احترام ہونا چاہئے اور عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے ۔دنیا میں ہر رشتہ احترام اور محبت کا طالب ہوتا ہے خواہ وہ آپ کے خاندان میں ہو یا پھر آپ کے دوست احباب ہوں یا پھر آپ کے اردگرد جو بھی لوگ ہیں سب ہی محبت اور پیار کے منتظر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اپنے بزرگوں کی قدر کرنا جو ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ یہ ہمارے لئے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جانے اور ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ رہے۔
 

شیئر: