ابوغانیہ ۔ جدہ
پاکستانی فلمی صنعت ماضی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہ وہ دور تھا جس میں مہدی حسن، نور جہاں، احمد رشدی ، مجیب عالم، اخلاق احمد نے گلوکاری کے میدان میں جھنڈے گاڑ رکھے تھے، وحید مراد، محمد علی، ندیم، شاہد جبکہ زیبا، دیبا، رانی، شبنم،فردوس، عالیہ، سلونی جیسی اداکارائیں ”مذکرانِ پاکستان“ کے دلوں میں مقیم تھیں، مسرور انور، حمایت علی شاعر جیسے نغمہ نگار اور رشید عطرے، بخشی وزیر، جی اے چشتی ، سہیل رعناجیسے موسیقاروں نے سامعین کو اپنا گرویدہ کر رکھا تھا۔ ایسے میں عروس البلاد سے اک عروس ، لالی وڈ جیسے بلادِ عروس میں نمودار ہوئی ۔ جس نے پہلے اپنی دھاک بٹھائی اور پھر دہائیوں تک سب کو مبہوت کئے رکھا۔
پاکستان کی اس منفرد فنکارہ ممتاز کا اصل نام رفعت تھا۔ وہ 1948ءمیں کراچی میں پیدا ہوئیں۔قدرت نے انہیںحُسن و جمال عطا فرمایا تھا۔وہ اپنی معصومیت اور خوبصورتی کے باعث ہی شو بز کی دنیا میں ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ فلمی دنیا میں متعارف ہونے کے بعد ان کے مداحوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔ لالی وڈ میں قدم رکھنے سے قبل وہ نجی تقریبات میں بطور رقاصہ شرکت کرتی تھیں تاہم جب انہوں نے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تو انہیں ممتاز کا نام دیا گیا اور انہوں نے ”گلیمر گرل“ کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔انہوں نے رقص کے ساتھ ساتھ اداکاریت پر بھی توجہ دی اور ڈائیلاگ کی ادائیگی پر خوب محنت کی ۔ اُس دور کی لالی وڈ جس میں بے مثال صلاحیتوں کے حامل فنکاروں کی فوج ظفر موج موجود تھی، اس میں اداکارہ ممتاز نے اپنے نام کے مصداق ایسا ممتاز مقام حاصل کیا کہ وہ اپنی مثال آپ کہلائیں۔
پاکستانی فلمی صحافی الیاس رشیدی نے ممتاز کو اپنی فلم ”احساس“ میں اداکاری کا موقع دیا۔یہ ممتاز کی پہلی فلم ضرور تھی مگر یہ ان کے کریئر کی اولیں فلم ثابت نہ ہو سکی کیونکہ اس کی عکسبندی کے دوران ہی انہیںایورنیواسٹوڈیوز والوں کی فلم ”سلام محبت“ میں کام دے دیا گیا اس کے علاوہ انہیں اداکار رنگیلا کی فلم ”دل اور دنیا“ میں بھی کاسٹ کر لیا گیا۔ سلام محبت میں اداکار محمد علی اور زیباکے مقابل ممتاز نے اداکاری کی۔ خواجہ خورشید انور کی موسیقی سے مزین یہ فلم اگست 1971ءمیں سینما کی زینت بنی۔ اس طرح سلام محبت ہی ممتاز کی پہلی فلم قرار پائی۔
1971ءمیں ہی ممتاز کی دوسری فلم ”دل اور دنیا“ منظر عام پر آئی۔ اس کے اداکار و ہدایتکار رنگیلا ہی تھے۔ سلام محبت اور دل اور دنیا میں ممتاز نے اچھا رقص کیا اس کے باوجود وہ دیگر پرروڈیوسرز اور ہدایتکاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ان دونوں فلموں کے بعد ممتاز کی فلم ”احساس“ سینما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی ۔ یہ وہ فلم تھی جو انہوں نے سب سے پہلے سائن کی تھی ۔ احساس کامیاب رہی اور اس سے ممتاز کو شہرت بھی ملی۔اسی فلم سے وہ دوسرے ہدایتکاروں اور پروڈیوسرز کی توجہ کا مرکز بنیں۔
احساس فلم میں ممتاز کا نام ”انجم“ تھا ۔ بعد ازاں انہیں انجم کے نام سے ہی پکارا جانے لگا۔ لالی وڈ نے بعد میں ان کا نام ممتاز رکھا اور پھر یہی نام ان کی پہچان بنا رہا۔انہوں نے اسی نام سے فلمی دنیا پر 20برس حکمرانی کی ۔
بنارسی ٹھگ، منور ظریف کی فلم تھی جو28اکتوبر 1973ءکو نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اس کے اداکاروں میں م متاز کے علاوہ فردوس، اعجاز، زمرد، منور ظریف ، سائرہ ، سلطان راہی، نعیم ہاشمی اورالیاس کا شمیری شامل تھے۔یہ ممتازکی چھٹی فلم تھی۔۔بنارسی ٹھگ بہت کامیاب رہی۔سچ یہ ہے کہ بنارسٹی ٹھگ میں ممتاز کا کردار اہم نہیں تھا مگر انہوں نے فلم میںنابغہ رروزگار موسیقار بخشی وزیر کے ترتیب دیئے ہوئے نغمے پر رقص کیا تھا جس کے بول تھے :
اکھ لڑی بدو بدی، موقع ملے کدی کدی
کل نئیں کسے نے ویکھی، مزہ لہئے اج دا
اس نغمے اور اس پرممتاز کی جانب سے پیش کی جانے والی اعضاءکی شاعری کو فلمی شائقین کی جانب سے اس قدر داد ملی کہ یہ نغمہ، نغمہ نگار، موسیقار اوراداکار، سب نے ہی شہرت کا ہمالہ سر کر لیا۔یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ ممتاز وہ واحد فنکارہ ہیں جنہوں نے اپنے کریئر کی ابتدائی 6فلموں میں بطور رقاصہ کام کیا اورپھر لالی وڈ کی کامیاب ترین ہیروئنز کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب رہیں۔1974ءمیں بھی نمائش کے لئے پیش کی جانے وا لی 3 فلموںمیں ممتاز نے بطور ہیروئن کام کیا تھا۔ان میں” نوکر ووہٹی دا “ شامل تھی ۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لالی وڈ کی اس فلم کی ہو بہونقل بالی وڈ میں بھی تیار ہوئی جس کا نام تھا”نوکر بیوی کا“۔اس فلم میں دھرمیندر نے ہیروکا کردار ادا کیا تھا۔ بالی وڈ نے لالی وڈ کی ”نوکر ووہٹی دا“ کی نقل اس طرح کی کہ ناقدین نے بالی وڈ کی فلم کو پاکستانی فلم کاچربہ نہیں بلکہ ”کاپی، پیسٹ“ ہی قرار دیا۔ممتاز کی کامیاب ترین فلموں میں :
٭٭5جولائی 1974ءکو نمائش کے لئے پیش کی جانے والی ”سیدھا راستہ“، 8نومبر1974ءکو پیش کی جانے والی گولڈن جوبلی فلم ”دشمن“، 28مارچ1975ءکو پیش کی جانے والی ”ہار گیا انسان“، 4اپریل 1975ءکو پیش کی گئی ”پیار کا موسم“، 6جون 1975ءکی گولڈن جوبلی فلم ”محبت زندگی ہے “، 21نومبر 1975ءکو ریلیز کی جانے والی ایک اور گولڈن جوبلی ”جب جب پھول کھلے“ شامل ہیں۔ان کے علاوہ ”شکار“، ”جادو“، ”صورت اور سیرت“، ”شرارت“ ”روشنی “ ، ”تلاش“اور ”کوشش“ جیسی فلمیں بھی ممتاز کی فنکارانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ان کے علاوہ ”خریدار“، ”جیو اور جینے دو“، ”پرستش“اور ”اکھ لڑی بدوبدی“وہ فلمیں ہیںجنہوں نے سلور جوبلی مکمل کی۔1977ءکی سلور جوبلی فلم ”اپنے ہوئے پرائے“،1978ءکی پلاٹینم جوبلی ”امبر“، 1981ءکی سلور جوبلی فلم ”میرے اپنے“ایسی فلمیں تھیں جنہوں نے ممتازکی شہرت و مقبولیت کو چار چاندلگا دیئے۔ انہوں نے کم و بیش 150فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
اداکارہ ممتاز کسی اپسرا کی طرح مداحوں کی سوچوں پرکئی برس تک چھائی رہیں۔ فلمساز چوہدری اجمل بھی اس پری وش کے سحرکے گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ انہوں نے اسی ”اسیری“ کے زیر اثر فلم شیشے کا گھر بنائی جس میں اداکار شاہد نے مرکزی کردار ادا کیا۔چوہدری اجمل نے اداکارہ کے لئے 5لاکھ روپے مالیت کا شیشے کا گھر بنوایاجسے فلم کے اختتام کے قریب اداکارہ ممتازنے اپنے ہاتھوں سے پتھرمار مار کر اسے چکنا چور کردیا۔
اردو فلموں میں ممتاز کی جوڑی اداکار محمد علی اور ندیم کے ساتھ بے انتہاءکامیاب رہی۔محمد علی کے ساتھ ”صورت اور سیرت، منزل، سنگرام“ ان کی کامیاب فلیں تھیں جبکہ ندیم کے ساتھ ”جب جب پھول کھلے،انتظار، کوشش اورامبر“ کامیاب فلموںکی فہرست میں شامل ہیں۔ان کے علاوہ ”زنجیر، جاسوس، جینے کی سزا، ضدی، شکار اور دبئی چلو“ ایسی فلمیں ہیں جو ممتاز کو فن کے حوالے سے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
پنجابی فلموں میں اداکارہ ممتاز نے سدھیر، یوسف خان، شاہد، علی اعجاز، منور ظریف اور سلطان راہی کے ساتھ کامیاب فلمیں کیں اور یہ سفر بھی جاری و ساری رہا۔ وہ بلا شبہ لالی وڈ کی حَسین و کامیاب ہیروئن قرار پائیں۔اسی طرح وہ فلمیں جن میں ممتاز کا کردارکامیابی کے حوالے سے بے مثال رہا ، ان میں”منزل، دو راستے، مقدر کا سکندر، آوارہ اور ایک جان ہیں ہم“ شامل ہیں۔ پنجابی فلم ”گنگوا“ ممتاز کی آخری فلم تھی جو1991ءمیں نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔انہیں بہترین اداکارہ کے طور پرفلم جادو کے لئے 1975ءمیں نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد 1978ءکی فلم حیدر علی، 1979ءکی نظام ڈاکو،1980ءکی فلم سوہرا تے جوائی اور 1985ءکی فلم دھی رانی میں بہترین اداکاری پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فلم انڈسٹری میں جب نیلی، نادرہ ، عندلیب، سائرہ خان اور دیگر کئی اداکارائیں سامنے آئیں، اسی دور میں ممتاز پاکستان کو خیر باد کہہ کر کینیڈا چلی گئیں۔
شنید ہے کہ70سالہ پیکرِ جمال ، اعضاءکی شاعرہ، فن کارہ و اداکارہ ممتاز کو پاکستان واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اگر یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں تو انہیں ٹی وی ڈراموں میں دیکھا جا سکے گا۔ وہ کب، کس چینل پر اور کون سا ڈرامہ پیش کریں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔