Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ادلب پر قتل عام کی تلوار لٹک گئی

عبدالرحمن الراشد۔الشرق الاوسط
ادلب اور اس کے اطراف مسلح عناصر عظیم معرکہ شروع کرنے کیلئے اپنی بندوقیں صاف کرنے اور اپنی چھریوں پر دھار لگانے لگے ہیں۔ غالباً یہ شام کی جنگ کا آخری معرکہ ثابت ہوگا۔ روس کے 8جنگی جہاز ادلب کے ساحل پر مستعد کھڑے ہوئے ہیں۔ ان پر میزائل لدے ہوئے ہیں۔ دسیوں ہزار شامی فوجی اور کثیر قومی ایرانی ملیشیا کے جوان بھی ادلب کے معرکے کے مشتاق نظرآرہے ہیں۔ دوسری جانب ”شام محاذِ آزادی“ کے عناصر مزاحمت کیلئے کمر بستہ ہیں۔ شام محاذِآزادی میں النصرہ محاذ، خالد بن الولید لشکر ، الشریعہ فورس، السریع الساحل اور الملاحم کا لشکر شریک ہیں۔ یہ سب دہشتگرد تنظیمیں ہیں۔ نظریاتی طور پر القاعدہ تنظیم کا توسیعی حصہ ہیں۔ انکے بیشتر قائدین شامی نہیں۔ مثال کے طور پر ابو ماریا الجبوری القحطانی اور ابو الیقظان المصری اور الفرغلی کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
ادلب کے دونوں جنگجو فریقوں نے ہی گزشتہ 7برسو ںکے دوران شام میں قتل و غارتگری مچائی ۔ دونوں فریق ماضی میں براہ راست جنگ سے پہلو تہی کرتے رہے۔ سوچ یہ تھی کہ ممکن ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے فریق کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ دہشتگردوں نے شامی نظام حکومت کو قانونی شکل دی۔ اسکی اچھی تصویر پیش کی۔ شامی نظام شہریوں کے خلاف قتل عام اور لاکھوں باشندوں کو وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کرتا رہا۔ یہ سب کچھ فرقہ وارانہ عنوان کے تحت کیا جاتا رہا۔ اس نے دہشتگردوں کو دنیا بھر سے بھیانک فرقہ وارانہ جنگ میں شرکت کیلئے جنگجو لانے کے تشہیری مواقع فراہم کئے۔ جنگجو فریقوں میں ایک طرف شامی نظام حکومت اور ایرانی ملیشیائیں ہیں اور دوسری جانب الشام محاذ آزادی کے عسکریت پسند ہیں۔ 
فریقین نے ماضی میں بیشتر معرکے آزاد فوج کے خلاف لڑے۔ آزاد فوج میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔ آزاد فوج نے کبھی جہادی دینی نعرہ بھی نہیں لگایا تھا۔ یہ شامی نظام کےلئے حقیقی خطرہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ خطے سمیت مغربی دنیا کے ممالک بھی آزاد فوج ہی کو قومی متبادل مان رہے تھے۔ 
ادلب مشرق و مغرب کے مفرور دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن گیا۔ انکا دائرہ ترک حدود تک پھیل گیا۔ ترکی نے اپنی سرحدیں انکے لئے بند کردیں۔دراندازوں یا فرار ہونے والوں کو ملک میں آنے سے روکنے کیلئے افواج تعینات کردیں۔ اب ادلب ہیبتناک فوجی اجتماع کے باعث بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔
30لاکھ سے زیادہ بے قصور نہتے شہری 24گھنٹے خوف و ہراس کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں 50فیصد ایسے ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں سے جان بچا کر یہاں پہنچے تھے۔ وہ ایرانی ملیشیاﺅں یا داعش اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے حملوں کے ڈر سے یہاں آئے تھے۔ شامی باشندوں کو کسی بھی شہر یا قصبے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ انہیں انسانی ڈھالوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر آئندہ ایام میں ادلب میں جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں جیسا کہ ایرانی شامی نظام کے کمانڈر اور روسی کمانڈر دھمکیاں دے رہے ہیں تو یقین کیجئے کہ شامی جنگ کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا قتل عام ہوگا۔ غالباً یہی وہ درد ناک حقیقت ہے جس نے عالمی ایلچی برائے شام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ شامی جنگ کا اختتام غیر معمولی المیے سے ہو یہ بڑی اندوہناک بات ہے۔ 
عالمی ثالث اور ایلچی برائے شام کا رویہ افسوسناک بھی ہے اور حیرت انگیزبھی۔ وہ یہ کہہ کر کہ ادلب میں 10ہزار دہشتگرد بیٹھے ہوئے ہیں ایک طرح سے اہل ادلب کے خلاف عسکری کارروائی کا جواز بھی پیش کررہے ہیں اور انکے خلاف جنگ پر بھڑکا بھی رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ادلب میں دہشتگرد الشام محاذِآزادی کے بہت سارے جنگجو موجود ہیں مگر جو تعداد عالمی ایلچی نے بتائی ہے وہ کافی مبالغہ آمیز ہے۔ اگر انکے پاس تفصیلی اور دقیق ترین معلومات ہیں تو انہیں وہ طلاعات ذرائع ابلاغ کے سامنے لانی چاہئے۔ اسی طرح انہوں نے یہ کہہ کر کہ ”فریقین کیمیکل ہتھیار استعمال کرینگے “ ایک طرح سے روسیوں اور شامی حکمرانوں کو اپنے سابقہ دعوﺅں کو درست ثابت کرنے کا جواز فراہم کردیا۔ یہ دونوں کہتے رہے ہیں کہ شام میں کیمیکل حملے دہشتگرد کرتے رہے ہیں اور وہی اب بھی اسکی تیاریاں کررہے ہیں۔ شامی حکمراں یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ مہلک گیس دہشتگردوں نے استعمال کی جبکہ حتمی شواہد سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ کام شامی حکمرانوں کا ہی تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ الشام محاذِ آزادی شہریوں کے خلا ف ہیبت ناک جرائم سے پاک صا ف ہے لیکن یہ درست ہے کہ اس نے اس قسم کا کوئی ہتھیار نہ تو استعمال کیا اور نہ ہی اسکے پاس کیمیکل ہتھیار ہیں۔ کم از کم سابقہ مصدقہ حملوں کی حد تک یہ بات قطعاً درست ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: