انسانی حقوق اور چاپلوسی کی سیاست
ڈاکٹر طلال صالح بنان ۔ عکاظ
موجودہ بین الاقوامی نظام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اسکی رکنیت کا دائرہ ریاستوں تک محدود نہیں۔ عالمی نظام کی رکنیت کا دائرہ ریاستوں سے آگے بڑھ کر فرد تک پہنچ گیا ہے۔ بحیثیت انسان ہر فرد عالمی نظام کا رکن ہے۔ عالمی نظام فرد کے حقوق اور عالمی نظام کی اقدار و اداروں کے حوالے سے اس کی جائز امنگوں کوتحفظ فراہم کرتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک پر دو طرفہ اور مشترکہ بین الاقوامی معاہدوں و سمجھوتوں کے بموجب انسانی حقوق کی پاسداری کا فرض عائد ہے۔ ہر ملک علی الاعلان قانونی طور پر فرد کے حقوق ادا کرنے کا پابند ہے۔ انسانی حقوق ، ممالک کی آئینی دفعات اور ملکی قوانین میں مقرر ہیں۔
موجودہ بین الاقوامی نظام میں انسانی حقوق کی منفرد صورتحال کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔اس حوالے سے عمومی حکم صادر نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی حقوق کے مسائل اخلاقی اقدار سے کہیں زیادہ سیاسی جوڑ توڑ کے مرہون منت بنے ہوئے ہیں۔ عصر حاضر میں کوئی ایک ریاست ایسی نہیں ملے گی جو کھلم کھلا انسانی حقوق کی پامالی کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ کوئی بھی ملک کھلم کھلا انسانی حقوق کے خلاف بھڑکانے کی جرا¿ت نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی ملک یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کریگا۔ آمرانہ نظام بھی اسکی ہمت نہیں کرسکتے۔ یہ بھی زبانی جمع خرچ کے طور پر یہی کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے پابند ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کے یہاں انسانی حقوق کا احترام مقررہ قوانین و ضوابط کے تحت کیا جارہا ہے۔
اصل مسئلہ انسانی حقوق کے احترام کا نہیں بلکہ احترام کے سیاسی استحصال کا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ انسانی حقوق کے مسائل کو سیاسی چکر بازیوں اورسیاسی آلودگیوں سے پاک کیا جاسکے یا انسانی حقوق کو سیاسی عینک کے بغیر دیکھا جاسکے۔
بہت سارے ممالک جو خود کو سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ترقی یافتہ اور متمدن قرار دیئے ہوئے ہیں۔ وہاں انسانی حقوق کا معاملہ ان کے اپنے معاشروں سے آگے نہیں بڑھتا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان کے یہاں انسانی حقو ق کا کوئی مسئلہ ہی جنم نہیں لیتا۔ ابھی تک نام نہاد متمدن معاشروں میں انسانی حقو ق کے معاملات اس درجے تک نہیں پہنچے ہیں کہ ایک متمدن ملک کے شہری انسانی حقوق کو اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں منعکس دیکھنے کی آرزو ظاہر کرسکیں۔
بہت سارے مغربی ممالک اپنی اعلانیہ خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کی حمایت اور تائید کو وجہ امتیاز بنائے ہوئے ہیں۔ وہ ملکی قوانین میں ایسے قاعدے ضابطے شامل کئے ہوئے ہیں جن کے بموجب وہ بیرون ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کے پابند ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ اپنے عدالتی اداروں کو علاقائی خودمختاری کے دائرے سے باہر جاکر انسانی حقوق کے تنازعات نمٹانے کا اختیار دیئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی عدالتوں کو اس امر کا پابند بنائے ہوئے ہیں کہ وہ کسی بھی غیر ملکی ادارے یا غیر ملکی شخصیت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات چلا سکتی ہیں۔
مغربی ممالک کی تاریخ بین الاقوامی سیاسی عمل کے حوالے سے سوالات کے حصار میں ہے۔ انکا یہ دعویٰ کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی دیکھ کر دکھی ہوجاتے ہیں انکا ماضی اس دعوے کی تردید کردیتا ہے کیونکہ یہ وہی ممالک ہیں جو اقوام عالم کے سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے تھے اور انہوں نے آزاد اقوام کے علاقوں پر غاصبانہ قبضے کرکے نسلی تفریق کے حوالے سے وہ سب کچھ کیا جسے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی مانا جاتا ہے۔ یہ ممالک اسرائیل کی تائید و حمایت کرنے والوں میں پیش پیش ہیں جو فلسطینیوں کے تمام جائز حقوق کی پامالی کو اپنا وتیرہ بنائے ہوئے ہیں۔
یہ ایسے ممالک ہیں جو اسرائیل کی تائید و حمایت کو دنیا بھر کے سامنے لانے کیلئے مسئلہ فلسطین پر بحث سے اقوام عالم کو روکنے کیلئے بین الاقوامی انسانی حقو ق کے اداروں اور تنظیموں سے نکل جانے تک کے فیصلے کرلیتے ہیں۔ ایسے عالمی اداروں کی مدد سے ہاتھ روک لیتے ہیں جو فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتی ہیں۔
عصر حاضر میں بین الاقوامی نفاق کی کوئی ایک شکل نہیں۔ بڑے ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیئے ہوئے ہیں وہ انسانی حقوق کی تذلیل میں ادنی تکلف سے کام نہیں لیتے۔ اپنے یہاں بھی وہ انسانی حقوق پامال کرتے ہیں اور دیگر ممالک میں بھی قومیت، رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر انسانی حقوق کے چیتھڑے اڑاتے ہیں۔ مغربی ممالک دیگر اقوام عالم کے مقابلے میں انسانی حقوق کے حوالے سے اخلاقی برتری کادعویٰ نہیں کرسکتے۔ یہ ممالک انسانی حقوق کے نام پر اقوام عالم کا استحصال کرتے رہے ہیں ، آج بھی کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭