Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرے میں عدم برداشت کا خطرناک رجحان

 صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے، انسان ہونے کے ناتے کسی پر تشدد کرنا  مناسب نہیں
محمد راحیل وارثی
معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتا ہے۔ یہی گمبھیر صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس سُرعت سے فروغ پارہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ لوگوں میں ذرا بھی برداشت نہیں، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔ متشدد واقعات اکثریت میں دیکھنے میں آتے ہیں، سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز خاصی تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔ چند روز پہلے ایک چھوٹی سی بچی کو چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر خاتون نے جس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، ایسی بدترین نظیریں کسی اور معاشرے میں ملنا مشکل ہیں۔ اس معصوم پر اُس عورت نے اتنی چھوٹی سی بات پر تھپڑوں کی برسات کردی۔ اس پر عوام میں خاصا غم و غصہ پایا گیا اور اُس خاتون پر سب نے لعن طعن کی۔ حکومت بھی اس پر حرکت میں آگئی۔ 
یہ تو پھر بھی معمولی واقعہ تھا، ہمارے معاشرے میں تو باپ محض گول روٹی نہ بنانے پر بیٹی کو قتل تک کرچکا ہے۔عدم برداشت اور متشدد طرز عمل کے فروغ کی بدترین مثال، لاہور میں سامنے آنے والا ایک واقعہ بھی ہے جس میں کپڑا چوری کرنے کے الزام میں نہ صرف دو خواتین پر بدترین تشدد کیا گیا بلکہ اُن کواغوا بھی کر لیاگیا۔ اطلاعات کے مطابق جلو موڑ کے علاقے میں جی ٹی روڈ مارکیٹ کے دُکان داروں نے چوری کے الزام میں دو خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ قانون کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔اس واقعے کی وڈیو بھی منظرعام پر آئی جس میں ملزم بے بس اور مجبور خواتین پر ڈنڈوں، گھونسوں اور تھپڑوںکا آزادانہ استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ عورتوں پر سرعام اتنا بہیمانہ تشدد ہمارے معاشرے کے ماتھے پر ایسا کلنک ہے جو کبھی مٹ نہیں سکے گا۔
مذکورہ بالا واقعات ہمارے سماجی رویوں میں در آئی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھرپور عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بلاشبہ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ¿ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ ہمارے مہذب لوگ ان تمام واقعات پر صحےح، غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت بخوبی رکھتے ہیں اور غلط کو نہ صرف غلط کہتے بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب وہ خود کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرپاتے ۔ یہ معاشرتی دوعملی کیوں؟ یہ سوال، جواب کا متقاضی ہے۔
دوسری طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں میں سے برداشت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہمارے عوام کی اکثریت کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ اُن کی زیست مسائل اور مشکلات سے عبارت ہے، جن میں کمی کی کوئی سبیل دِکھائی نہیں دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مصائب بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان مستقل پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے ہمارے شہریوں کی اکثریت سخت اذیت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں پر اس صورت حال نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ تنک مزاجی اُن کا خاصہ بن چکی ہے۔ عوام کی اکثریت نفسیاتی عوارض سے دوچار ہوچکی ہے تبھی تو اُنہوں نے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اُن میں عدم برداشت کی روش انتہائی خطرناک انداز میں تیزی سے فروغ پارہی ہے جب کہ وہ بعض حالتوں میں تشدد پر بھی اُتر آتے ہیں۔یہ سنگین مسئلہ ہے جس میں بہتری کے لئے حکومتی کوششیں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتیں۔ 
بلاشبہ تمام مسائل کا حل ہوتا ہے، کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو لاینحل ہو۔ اس لحاظ سے عدم برداشت کے رجحان پر بھی قابو پانا ممکن ہے، لیکن یہ کسی ایک کے کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں شاید سنہرا ماضی لوٹ آئے کہ جب ہمارا سماج اعلیٰ اخلاقی اقدار، محبت، برداشت، رواداری کی خصوصیات سے مزّین تھا۔ لوگ ایک دوسرے کا ازحد احترام کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ لڑائی جھگڑوں کا تصور ہی نہ تھا۔ چوری، ڈکیتی ، قتل ایسے جرائم سے ہمارا سماج مبّرا تھا۔ وہ سنہرا دور واپس آسکتا ہے، اس کے لئے ہر مکتب فکر کے افراد کو ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس دوعملی رویے کو بھی ترک کرنا ہوگا کہ دوسرا عدم برداشت کا مظاہرہ کرے اور تشدد پر اُتر آئے تو ہم اس کو لعن طعن کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور جب خود ایسا کر گزرتے ہیں تو اس کے لئے طرح طرح کے جواز گھڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
یہ حقیقت ہے کہ ہم اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرلیں تو صورت حال خاصی بہتر ہوسکتی ہے۔ صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے۔ انسان ہونے کے ناتے کسی پر بھی تشدد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت امر ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیاجائے ۔ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور انسانیت کا درس دیاجائے ۔

شیئر: