محصور پاکستانیوں کا تبادلہ ضروری
***خلیل احمد نینی تال والا***
وزیر اعظم عمران خان کراچی آئے اور چلے گئے۔ کراچی پاکستان کا وہ واحد بڑا شہر ہے جس میں تمام صوبوں سے لاکھوں افراد ہر سال کراچی نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوتے ہیں اور نوکریاں ،کاروبار بھی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کچی آبادیوں کی بھر مار ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بے پناہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ کراچی جو سب سے صاف ستھرا شہر ہوتا تھا جس کی راتیں روشنیوں سے جگمگاتی تھیں یہاں سڑکیں دھلتی تھیں ۔بڑی بڑی شاہراہیں ،عمارتیں ،خوبصورت مکانات ،سمندر اس کی شان سمجھی جاتی تھیں ۔پڑھے لکھے لوگوں کا گہوارہ ہوتا تھا ۔صرف 30پینتیس سال میں دیکھتے ہی دیکھتے اُجڑتا جارہا ہے۔پورے پاکستان کی معیشت اور ٹیکس میں دو تہائی سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود عملاً 5فیصد بھی اُس پر خرچ نہیں کیا جاتا ۔
شروع سے مرکزی حکومت ہو یاصوبائی حکومت، اس کو صرف ATM سمجھتے رہے ہیں ۔یہاں کی بہت سی انوکھی مثالیں ہیں۔ کسی صوبے میں کوٹہ سسٹم نہیں ، صرف صوبہ سندھ میں مرحوم بھٹو صاحب نے چند سال کیلئے نافذکیا تھا۔آج اُس کو 46سال ہوچکے ہیں ۔کراچی خود دارالخلافہ اور الگ انتظامی صوبہ تھا ۔پہلے دارالخلافہ اسلام آباد کے جنگلات میں منتقل ہوا اور پھر ون یونٹ صوبہ بھی گیا ۔اب جب نئی حکومت بہاولپور کو دوبارہ صوبہ بنارہی ہے تو کراچی کو بھی الگ انتظامی صوبہ متروکہ سندھ کے نام سے بناکر منی پاکستان بنادیا جائے اور کوٹہ سسٹم بھی ختم کیا جائے ۔
کراچی کی سب سے بڑی آبادی جو ڈھائی کروڑ سے بھی زیادہ ہے اُس کی مردم شماری دوبارہ کرواکر اُس کی اصلی آبادی کا پتہ لگاکر اُس کی حصے کی قومی اور صوبائی سیٹیں بحال کی جائیں ۔کراچی والوں کو پی ٹی آئی سے امیدیں وابستہ تھیںکہ عمران خان کراچی کے ساتھ ہونے والی سوتیلی ماں والا سلوک ختم کرکے ان کے حقوق بحال کرینگے ،مگر ماضی کے حکمرانوں کی طرح وہ آئے اور چلے گئے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 10سال پہلے کی مردم شماری اور 2018کی مردم شماری میں آبادی نہیں بڑھی۔ یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے جو صرف کراچی والوں کے ساتھ ہے، ہاتھ کی صفائی دکھاکر الیکشن کروادیئے گئے ۔اب تو اس کا مداوا ہوناچاہئے ۔دوسری طرف جب لاکھوں افراد صوبہ پنجاب ،کے پی کے ،بلوچستان اور اندرون سندھ سے نقلِ مکانی کرتے ہیں تو وہاں کی آبادیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں اور اب جب مرکزی حکومت لاکھوں افغانی ،برمی اور بنگلہ دیشی غیر قانونی افراد کو پاکستانی قومیت دینا چاہتی ہے توپھر وہ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی جو بنگلہ دیش میں 50سال سے گمنامی کی دردناک زندگی ،گندے اور کچے کیمپوں میں گزار رہے ہیں، ان کو پاکستان کیوں واپس نہیں لایا جاتا ۔وہ تو اصلی پاکستانی شناخت رکھتے ہیں ۔بنگلہ دیش حکومت اُن کو بنگلہ دیشی نہیں سمجھتی، ہم اُن کو پاکستا نی نہیں سمجھتے ۔کیوں نہ ہمارے ملک کے بنگالیوں کاان محصورین سے تبادلہ کرلیا جائے۔ اُس سے دونوں ملکوں کی آبادیوں میں بھی فرق نہیں آئے گا اور یہ مسئلہ بھی حل ہوجائیگا ۔
ہم نے لاکھوں غیر قانونی افغانیوں کو ابھی تک پناہ دے کر خیرسگالی کا برتائو کیا ہوا ہے مگر درحقیت افغانستان ہمارے دشمن ہند کے ساتھ مل کر خود ہمارے خلاف دہشتگردی کرانے میں ملوث ہے ۔ہمارے ملک میںان افغانیوں کی بدولت اسلحہ ،منشیات ،لاقانونیت عروج پر ہے۔ پھر اُن کی جنگ ہم کب تک اور کیوں لڑتے رہیں گے ۔ہماری نوجوان نسل منشیات میں مبتلا ہورہی ہے ۔یہ افغانی اور اُن کے کارندے کھلے عام منشیات پولیس سے مل کر فروخت کرتے آئے ہیں ۔اسی طرح پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ کی بھر مار ہے ۔کے پی کے سے اسلحہ کے ٹر ک چل کر پنجاب ،اندرون سندھ سے ہوتے ہوئے کیسے کراچی میں آجاتے ہیں؟راستے میں کتنی چیک پوسٹیں ہیں کیسے ان سے بچ کر نکلتے ہیں ۔اب جب تبدیلی کا نعرہ لگ رہا ہے تو اس پر بھی کھل کر ہاتھ ڈالنا چاہئے ۔
اس کے علاہ ایک بہت سنگین مسئلہ کراچی میں کراچی الیکٹرک سپلائی جس کو ماضی کی مرکزی حکومت پی پی پی کے دور میں نجکاری کرکے ’’کے الیکٹرک‘‘ کے ہاتھوں فروخت کیاگیاتھا اس وقت ایک عذاب سے کم نہیں ۔ایک طرف اُس کی انتظامیہ نے اصلی کاپر کے تار نکال کر بیچ دیئے ہیں اوراُس کی جگہ کمزور تاریں لگاکر بجلی فراہم کررہے ہیں ۔پورے پاکستان سے سب سے مہنگی بجلی اور اُس پر طرح طرح کے غیر قانونی ٹیکس ،سرچارج کے نام پر اور ناقص میٹرز جس کی رفتاررکشہ والوں کے بدنام میٹروں سے بھی زیادہ ہے۔پھر جب وہ نجکاری سے پرائیویٹ ہوچکی ہے تو پھر ہماری پولیس کی دسترس میں کیوں ہے۔ان کی لاپروائیاںایک طرف ، بے تحاشا اضافی بلوں کا اجراء، بے لگام انتظامیہ کب تک کراچی کے عوام کو پریشان اور لوٹتے رہیںگے۔ایک معمولی سا واقعہ ہمارے چیف جسٹس کی توجہ حاصل کرلیتا ہے مگر اتنا بڑا جرم جو کے الیکٹر ک فراڈ کے ذریعے دن دہاڑے عوام کو لوٹ رہی ہے کوئی دادرسی کیلئے تیار نہیں ۔پھر لوڈشیڈنگ اور غفلت سے حادثات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔نیب اور ایف آئی اے کیوں سو رہے ہیں ۔کن شرائط پر کے الیکٹر ک سپلائی کو بیچا گیا پھر اس ادارے کو خریدنے والے دوبارہ بولی لگاکر نئے خریدارکو بیچ گئے۔ اس کھیل میںکون ملوث ہے اور کس کی سرپرستی میں یہ غنڈہ گردی ہورہی ہے اس پر بھی فور ی کاروائی ہونی چایئے ۔
اب پھر کراچی سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب منتخب ہوئے ہیں۔ ان کوتوکراچی کے دُکھ درد کا علم ہوگا ۔وہ ایک عوامی سوچ کے مالک ہیں ۔بہت معاملہ شناس شخص ہیں اور کراچی والوں کی خوش قسمتی ہے ۔ توقع ہے کہ صدر مملکت عوام کے مسائل عمومی طور پر اور کراچی کے مسائل خصوصی طور پر حل کرینگے ۔اور کراچی کی گمبھیرصورتحال کا حقیقی جائزہ لے کر کراچی کے عوام کو ان ناانصافیوں سے نجات دلوائیں گے۔