معیشت کا بحران اور اقدامات
جمعرات 27 ستمبر 2018 3:00
***سجاد وریاہ ۔الخبر***
پاکستان کی معیشت دراصل ایسا امتحان ہوتا ہے جو کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے ۔ہر جماعت الیکشن سے پہلے قوم کو ایسے خواب دکھاتی ہے کہ جیسے حکومت سنبھالتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہانا شروع کر دینگے لیکن جب اقتدار کی منزل مل جاتی ہے تو ان کو پتہ چلتا ہے کہ یہ پھولوں کی سیج ہرگز نہیں ۔نوازشریف کی 5سالہ حکومت کے آغاز میں بھی معیشت کے مسائل تھے ،اس دوران سعودی عرب نے مدد فراہم کی تھی ۔زرداری اورنواز شریف کی مسلسل10 سال کی حکومتوں نے ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔پاکستان اسوقت ایک ایسی معاشی دلدل میں پھنسا ہے کہ جو بھی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو تعاون کی بجائے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پچھلی حکومتوں کا مقصد ہی پیسہ بنانا اور کرپشن کرنا تھا کیونکہ جس طرح سندھ میں زرداری کی مسلسل10 سالہ حکومت نے معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے بے شمار کیسز سامنے آرہے ہیں ۔انکو دیکھ کر ان حکمرانوں کی بے حسی اور بے رحمی نظر آتی ہے۔ان کے پیٹ ہیں کہ دوزخ کے کنویں بھر ہی نہیں رہے ۔زرداری اینڈ فیملی نے جو نئی ترکیب استعمال کی ،کہ نا معلوم افراد کے نام پر اکاؤنٹ کھولیں اور اربوںروپے ان میں ڈالیں اور دوسرے ممالک میں منتقل کردیں۔یہ ترکیب دراصل اسحاق ڈارکی ایجاد ہے ۔اسحاق ڈار نے سب سے پہلے نامعلوم افراد کے نام اکائونٹ کھولے اور شریف خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کی۔لندن میں مقیم قاضی فیملی بعد میں میڈیا میں شکایت کرتی نظر آئی کہ انہوں نے اپنے د ستاویزات کی نقول اسحاق ڈارکو کسی اور مقصد کیلئے دی تھیں لیکن انہوں نے ہمارے نام سے جعلی اکائونٹ کھول کر منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا۔زرداری مشہور زیادہ’’ مسٹر ٹین پرسینٹ ‘‘سے ہیں لیکن وہ کرپشن میں شریف خاندان کو گُرو مانتے ہیں۔شریف خاندان نے سیاست میں قدم رکھتے ہی کرپشن کے کاروبار کا آغاز کیا ۔سیاست،صحافت،عدلیہ اور بیورو کریسی میں پیسے کا استعمال کیا گیا اور اپنے حمایت یافتہ گروپ قائم کیے گئے جس سے متاثر ہو کر زرداری اینڈ کمپنی نے کرپشن کا کاروبار شروع کیا جس کا ایک بار محترمہ نے کسی انٹرویو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ اگر ہم پیسہ نہیں بنائیں گے تو سیاست میں ان شریفوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟جب دونوں پر آشکار ہوا کہ دونوں ہی کرپٹ ہیں تو دونوں نے میثاق جمہوریت کے نام پر ’’میثاق کرپشن‘‘ کر لیا جس کیمطابق ایک دوسرے کیخلاف’ ’رولا رپا‘ ‘پائی رکھیں گے لیکن کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جائیگا۔مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ادارے کیوں خاموش رہے؟فوج،نیب،ایف آئی اے ،اینٹی کرپشن،غرضیکہ حکومتی اور ریاستی مشینری ان کے سامنے بے بس دکھائی دی۔
مجھے اِن تمام موٹی موٹی باتوں کا حوالہ دینا پڑا کہ قوم جان سکے کہ پاکستان کی معیشت کا جنازہ جو بڑی دھوم سے نکلا ہے ،اس کے اسباب کیا تھے؟سابقہ حکمرانوں کے انداز حکمرانی بھی سمجھ آ سکے۔کیسے بے ضمیر ،لالچی گِدھ ،انتہائی غریب کی بوٹیاں نوچتے رہے۔’’تھر‘‘میں بچے سسکتے رہے اور مرتے رہے لیکن ان کی موٹی کھال ،حرام کے مال نے ان کو ڈھیٹ بنا کے رکھا ہے۔
نئی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ،خالی خزانہ ان کا منہ چڑا رہا ہے۔معیشت کا بحران ان کا منہ چڑا رہا ہے ،انکو سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں؟کس چیز کو پہلے چھیڑیں۔جس کو پکڑتے ہیں ،وہی ’’سرخ لال‘‘ نکلتا ہے لیکن میں یہ کہنے میں بھی خود کو قائل کر پایا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی کوئی خاص معاشی ٹیم نہیں لا سکی جس کے وہ دعوے کیا کرتی تھی ۔تمام مسائل جن کا وہ ذکر کرتے ہیں انکو پہلے سے معلوم تھے،تیاری کیوں نہ کی؟ اسد عمر کے دعوے اور پیشہ ورانہ مہارت بھی اپنا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔میں سمجھتا ہوں کہ مسائل گمبھیر ہیں ،انکو حل کرنے میں وقت بھی درکار ہو گا لیکن آپکو مسائل کو پہلے سمجھنا ہو گا پھر اعلانات کرنا چاہئیں،جیسے ریڈیو پاکستان کے معاملے میں حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔آپکو سمجھنا ہو گا کہ آپ کیخلاف ایک طاقتور اپوزیشن ہے ،متعصب اور منہ زور میڈیا ہے جو آپکی کمزور سی غلطی کو بھی معاف نہیں کریگی۔
میں ایمانداری سے موجودہ حکومت کی نیک نیتی کو سراہتا ہوں ۔کپتان نے سادگی اختیار کر کے اپنی حکومت کی سمت تعین کر دی ہے ،اگر ہفتوں میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی تو کم از کم قومی وسائل کا ضیاع تو روکا جا سکتا ہے،اسی طرح کرپشن کو روک کر اپنی قومی اداروں کی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔دنیا میں سفارتکاری کے ذریعے سرمایہ کاری لائی جائے ،ممالک کو قائل کیا جائے کہ ہمیں تجارت دیں ،بھیک نہ دیں ۔اس حکومت کا یہ اقدام معیشت کو ایک دم سہارا دے گا اگر اعلان کے مطابق سعودی عرب سی پیک میں سرمایہ کاری کا معاہدہ کر لیتا ہے۔سعودی عرب کا یہ اقدام عالمی سطح پر ہمارا اعتماد اور ساکھ بحال کر دے گا جس سے اور ممالک بھی ہمارے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔سعودی عرب کی دنیا میں سفارتی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے جس کا پاکستان کو بھر پور فائدہ ہو گا۔ابھی روس کی طرف سے بھی اعلان سامنے آیا ہے کہ 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو گیس کی فراہمی یقینی بنائیگا ۔چین ،پہلے ہی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ترکی بھی کچھ منصوبوں میں شامل ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو نئی حکومت کے ابتدائی اقدامات حوصلہ افزا ہیں ۔انہوں نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ضیاع کو روکا جا سکے اور سرمایہ کاری کو لایا جا سکے ۔سفیر حضرات کو ٹاسک دیا جائے کہ وہاں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ مل کر مقامی کمپنیوں اور کاروباری افراد کو پاکستانی مصنوعات سے متعار ف کروایا جائے۔پاکستان میں صنعتوں کو بھی ریلیف ملے گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی اجناس،سبزیوں،گوشت اور پھلوںکی دنیا میں ڈیمانڈ بھی ہے ۔اس کو چینلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ہندنے اپنی سفارتکاری سے اپنی مصنوعات کو عرب ممالک میں نہ صرف مقبول بنا رکھا ہے بلکہ ان کے باقاعدہ مالز قائم ہیں جس سے کثیر زرمبادلہ ان کے ملک کو ملتا ہے۔
پاکستان بھی اگر اپنی معاشی حالت کو بہتر کرناہے تو بھیک اور قرضے سے مستقل جان چھڑانی ہے تو اپنے اندرونی حالات کو سدھارنا ہو گا ،جیسا کہ عمران خان صاحب نے حلف اٹھاتے ہی اعلان کیا تھا کہ ہم اب کسی بھی جنگ میں شریک نہیں ہونگے اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ امن قائم ہو گا تو ہی سرمایہ دار اس ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔سرمایہ دار کا مزاج پرندوں جیسا ہو تا ہے ۔پرندے جہاں بہتر موسم اور دانہ پانی آسانی سے دستیاب سمجھتے ہیں وہیں کا رخ کر لیتے ہیں ۔اسی طرح سرمایہ دار جہاں محفوظ،پرامن ماحول اور سستی سہولیات کو میسر پاتے ہیں وہیں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔خالی نعروں سے اب کام چلنے والا نہیں۔کچھ عملی اقدامات بھی فوری اٹھانے کی ضرورت ہے۔ابھی تک کے ابتدائی اقدامات سے تو یہی لگتا ہے کہ درست سمت کا تعین کر لیا ہے، اب خود کو داخلی اور خارجی سطحوں پر متحرک رکھنے اور مستقل نگرانی سے معیشت کے سفر پر گامزن رہنا ہے۔اپنے دوستوں کی تعدا د بڑھانی ہے اور دشمنوں کو نظر انداز کرنا ہے ۔پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا بڑی کامیابی ہو گی اور انشاء اللہ موجودہ حکومت یہ سنگِ میل بھی عبور کر جائیگی۔