Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمال خاشقجی کی گمشدگی کا بحران .... کس طرح نمٹا جائے؟

ڈاکٹر محمد بن ابراہیم السعیدی
جمال خاشقجی کی گمشدگی یا انہیں لاپتہ کرنے کا قصہ یا انہیں قتل کرنے کا دعویٰ معمولی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ قلمکاروں نے اس سے نمٹنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا وہ حقیقی واقعہ سے کہیں زیادہ پُرخطر لگ رہا ہے۔ حق تک رسائی کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے قارئین کیلئے چند سطور قلمبند کروں۔ اس حوالے سے چند نکات پیش کرنا چاہوں گا۔
1۔ کسی بھی واقعہ کی بابت فیصلے میں جلد بازی اور حقائق دریافت کئے بغیر خود کو قاضی کی جگہ رکھ کر فیصلے صادر کرد ینا اچھی بات نہیں۔ قرآن پاک میں ہمیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة حجرات کی آیت 6میں ہمیں حکم دیا ہے ” اگر کوئی اخلاق باختہ انسان تمہارے پاس کوئی اطلاع لیکر آئے تو اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں آپ کسی گروہ کو نقصان پہنچا دیں اور پھر اپنے کئے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے“۔
بہت سارے لوگوں نے جمال خاشقجی کے منظر نامے سے روپوش ہونے کی اطلاع کے بعد سے من گھڑت الزامات اِس اور اُس پر لگانا شروع کردیئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے اپنے انتساب کے مد نظر سیاسی مقاصد کے تحت من گھڑت دعوے کردیئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں خدا ترسی کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ سب لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس قسم کے انحطاط کے سیاسی تعلقات اور مسلم عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے اور بڑھانے کی صورت میں خطرناک اثرات رونما ہوتے ہیں۔ بہت سارے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس سے کمتر درجے کے واقعات پر بڑی بڑی جنگیں شروع ہوئیں اورلاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ آسٹریا کے فرینز فرڈیننڈ کے قتل پر دنیا کی بدترین جنگ ہوئی لہذا اس قسم کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات کو ماہرین ، ریاست کے قائدین اور متعلقہ ممالک کے فیصلہ سازوں پر چھوڑ دیا جائے، مفاد عامہ کو ذاتی پرخاش پر ترجیح دی جائے تاکہ حق سامنے آجائے اور باطل مٹ جائے۔ ہمیں اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان بسا اوقات بغیر جانے ایسی بات کہہ دیتا ہے جس سے آگ بھڑک اٹھتی ہے او راسکے سنگین نتائج برپا ہوتے ہیں اس لئے غلط دعوﺅں سے بچنا چاہئے۔
کسی بھی واقعہ کے فیصلے میں جلد بازی اور کسی بھی ملک یا قائد کو بِن سوچے اور بِن سمجھے کسی کے قتل یا دولت ہتھیانے کا ذمہ دار ٹھہرا دینا بڑا سنگین معاملہ ہے۔ اس سے بائیکاٹ اور بدی کے آتش فشانوں کے دہانے کھل جاتے ہیں۔ اس قسم کے بحرانوں میں نرمی اور دور اندیشی انتہائی ضروری ہے تاکہ تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیں۔
2۔ سعود ی عرب اپنے قیام کے روز اول سے لیکر اب تک اپنے مخالفین کے ساتھ گھٹیا رویئے سے بالا ہوکر معاملہ کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب نے نہ کبھی کسی کا اغوا کیا اور نہ کسی کو قتل کرایا۔ سب جانتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح سعودی عرب کے بھی مخالف ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے مخالفین کے ساتھ اعزاز و اکرام کا معاملہ کرکے انہیں اپنایا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ یہ فارمولہ کارگر ثابت نہیں ہوا تو سعودی عرب نے انکا انجام عوام الناس کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ اس طرح کے قصے بہت سارے ہیں لہذا مسلم دنیا کے انتہائی اہم ملک کی بابت اس قسم کے شکوک و شبہات کو ہوا دینا کسی طور زیب نہیں دیتا۔ خاص طور پر ایسے عالم میں جب سعودی عرب نے کبھی کوئی گھٹیا پالیسی نہیں اختیار کی بلکہ بہت سارے شواہد بتاتے ہیں کہ سعودی عرب پر اس قسم کی الزام تراشی کا کوئی جواز نہیں۔چند یہ ہیں۔
٭ جمال خاشقجی مملکت کی قیادت سے اختلاف کرنے والے ایسے لوگوں میں سے نہیں تھے جنہیں بدترین مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں انہیں قتل کرنے یا اغوا کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
٭ سعودی ولی عہد نے وعدہ کیا تھا کہ استنبول میں اپنے قونصل خانے کے دروازے ترک سیکیورٹی کےلئے کھول دیئے جائیں گے ۔ ترک حکام نے اس حوالے سے پہلو تہی کی تو قونصل خانے کے دروازے رائٹر ایجنسی کے صحافیوں کےلئے چوپٹ کھول دیئے گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے آگیا۔
٭ اگر خاشقجی سعودی سیکیورٹی کو مطلوب ہوتے توانہیں قونصل خانے آنے پر دھر لیا جاتا اور مملکت لانے کےلئے انہیں انٹرپول کے حوالے کردیا جاتا۔ خود کو بدنام کرانے والی صورتحال میں ڈالنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
٭ مجرم ایسی جگہ پر واردات کرتا ہے جہاں اس پر شک و شبہ نہ کیا جائے۔ خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کی واردات قونصل خانے کے اندر یا اطراف میں کرنے کا مطلب اس کے برعکس کا بنتا ہے۔
٭ سعود ی عرب نے خاشقجی کی گمشدگی کا پتہ لگانے کیلئے ترک حکام کی منظوری سے اسپیشل ٹیم بھیجی ہے۔ اگر مملکت کو اپنے بے قصور ہونے کا پورا یقین نہ ہوتا تو ایسا کبھی نہ کرتا۔ جمال خاشقجی ایسے شخص ہیں جنہوں نے سعودی محکمہ خفیہ کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ برسہا برس کام کیا۔ وہ اتنے سادہ نہیں تھے کہ انہیں اپنی جان کا خطرہ ہو اور وہ خود اپنے قدموں پر چل کر سعودی قونصل خانے پہنچ جائیں۔
3۔ اگر آپ حقیقی وارداتی کا پتہ لگانا چاہیں تو اس واقعہ میں یہ دیکھئے کہ خاشقجی کی گمشدگی کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے۔ سعودی عرب کو بلا شبہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا بلکہ بدنامی مفت میں ہاتھ آرہی ہے۔ کئی ممالک سعودی سفارتکاروں اور سیاستدانوں کو نقصان پہنچانے کی پہچان بنائے ہوئے ہیں ۔ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ یہ ممالک سعوی عرب اور ترکی کے تعلقات میں بہتری اور قربت سے خار کھائے ہوئے ہیں۔ جمال خاشقجی کی گمشدگی کا فائدہ یقینا انہی لوگوں کو ہوگا۔
4۔ قارئین سے کہوں گا کہ وہ نفرت انگیز ابلاغی اداروں کی خوفناک کوریج کے فریب میں نہ آئیں۔ ابتدا ءسے ہی الجزیرہ چینل اور رائٹر کے اہلکار سعودی عرب کو خاشقجی کی گمشدگی اور پھر قتل کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے یہ کہہ کر اس قسم کی تمام افواہوں کا قلع قمع کردیا کہ خاشقجی کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ کسی پر بھی الزام تراشی نہیں کرسکتے۔
5۔اس بحران نے عدل و انصاف اور حقوق کی علمبرداری کے دعویداروں کا حقیقی چہرہ طشت از بام کردیا۔
6۔ مختلف رجحانات والے سعودی قلمکاروں کیلئے بھی ایک پیغام دینا چاہوں گا ،میں ان سے کہوں گا کہ آپ لوگ اپنی ریاست اور اپنے وطن کا ساتھ دیں ،حق تمہارے ساتھ ہے، نعرے بازیوں کے فریب میں نہ آئیں۔ ہم نے عرب اور مسلم دنیا میں اس قسم کی نعرے بازیوں کے بڑے منظر نامے دیکھے ہیں۔ جو لوگ نعرے لگاتے ہیں سب سے پہلے وہی الٹے پیر بھاگ کھڑ ے ہوتے ہیں۔ 100برس کے دوران صرف ایک ریاست ایسی ریکارڈ پر آئی ہے جو وہی کہتی ہے جو کرتی ہے اور جو کرتی ہے اسی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے وقار اور اسکی سربلندی میں اضافہ کرے اور اسے فریب کاروں کے فریب سے بچائے رکھے،آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: