اُم مزمل۔جدہ
وہ دو منزلہ گھر کی رہائشی تھی۔ وہ زیادہ وقت دوسری منزل پر گزارتا تھا۔گھر کے دروازے پر کوسٹر آکر رکی تو وہ اپنی کولیگز کی مدد سے بڑے بڑے شاپنگ بیگز اور کی فریم لئے گھر میں داخل ہوئی۔ وہ دوسری منزل سے اپنی پھوپھی کے بچوں کے ہمراہ موجود تھا اور اسکی شاپنگ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ پھوپھی زاد نے اپنی بات درست ثابت ہوجانے پر ہوا سے اڑتی اپنی زلفوں کو ایک ادا سے سمیٹتے ہوئے کہا، تمہیں یقین نہیں آتا تھا ناں کہ وہ آئے روز اتنی شاپنگ کرتی ہوگی۔ دیکھ لو تمہاری تنخواہ کیسے خرچ کر دی جاتی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔اس نے تمام چیزیں اپنے کمرے میں رکھ کر دروازہ بند کرتے ہوئے اپنی بڑی امی کی طرف جانے کے لئے قدم بڑھاتے دیکھا ۔پھوپھی زاد بھائی قریبی بیکری کے کی شاپرز اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ تھوڑی سی محنت گھر پر کر لی جائے تو مہینے کے آخر تک تنخواہ سے گزارہ ہو سکتا ہے پھر سوچا کہ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ کسی کی ٹو ہ میں رہنا پسندیدہ نہیں۔جیسے ہی وہ بڑی امی کے کمرے تک پہنچی تودیکھا کہ وہ دروازے کی جانب ہی متوجہ تھیں کہ انہیں بھی اس کا انتطار تھا۔ وہ سلام کرنے کے بعد بتانے لگی کہ آج شاپنگ میں دیر ہو گئی۔ وہ پوچھنے لگیں سب کچھ خود اکیلے ہی اٹھانا پڑا؟ اس نے جواب دیا آپ بالکل فکر نہ کریں ڈرائیور نے سامان رکھنے میں مدد کی جبکہ میری کولیگ بھی ساتھ رہیں چیزوں کی خریداری میں اور گھر تک پہنچانے میں ۔ اس دوران وہ انکے کمرے کی ہر چیز سمیٹ رہی تھی پھر پوچھا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے یا غسل کے بعد ہی کھانا کھائیں گی؟انہوں نے کہا کہ نرس تو اپنی تیزی میں آدھا کام ہی نبٹاتی ہے ۔ اس کے ابھی دو گھنٹے پورے ہوتے بھی نہیں ہیں کہ واپسی کی راہ لیتی ہے۔ سارا کام تم پر ہی آجاتا ہے ۔وہ مسکراتے ہوے کہہ رہی تھی کہ مجھے آپ کا ہر کام عزیز ہے۔
وہ جب اپنی والدہ کے کمرے میں پہنچا تو انہیں سوپ کے ساتھ چپاتی کھاتے ہوئے دیکھ کر کوفت ہوئی۔ کیسے پھیکے رنگ کے سوپ میں چپاتی کھائی جارہی ہے اور وہ انہیں کھلانے کے ساتھ خود بھی وہی کھانا کھاتی ہوئی نظرآئی۔ کہاں باہر کا چٹپٹا کھانا جو اکثر وہ خود لیکر آتا یا منگوالیتا اور پھوپھی کے گھر دستر خوان پر سب ہی تعریف کر کر کے کھاتے اور اگلے دن کا ایسا ہی پروگرام بنا لیتے ۔
پھوپھا جان بیرون ملک رہتے تھے؟ سال بعد آتے تو چند ہفتے بعد ہی انکی واپسی ہوجاتی ۔ان چند دنوں میں وہ صرف تعطیلات ہی کی طرح وقت گزارتے اور واپس چلے جاتے ۔ انکے چاروں بچوں کے پاس پہلے سے زیادہ مہنگی چیزیں آجاتیں ۔ کئی جگہوں پر پکنک منا لیتے۔ پھوپھا کے کئی رشتہ دار ان سے ملنے اور شہر کی سیر کے لئے آتے خوب۔ چہل پہل ہوتی پھر واپسی کا وقت آجاتا پھر پھوپھی کے پاس صرف وہی ہوتا جو انکے ہر حکم کی تابعداری کرتا۔
وہ ابھی گیٹ پر ہی تھی کہ اچانک شور کی آواز سے اس طرف متوجہ ہوئی جہاں لوگ اسکول کے ایک کمسن طاکب علم کے گرد جمع تھے جس کے گلے پر کٹی پتنگ کی دھاتی ڈور سے رگڑ لگی تھی اوراس کی گردن زخمی ہوگئی تھی ۔ وہ فورا ًدوڑی اور اسے گود میں اٹھا کر اپنے گیٹ کے اندر لاکر ہاسپیٹل جانے سے پہلے فرسٹ ایڈ دینے لگی۔ فوراً پٹی باندھی اور سورہ الفا تحہ پڑھتی رہی ۔لوگوں کواس وقت تک کوئی مدد کرنا یادنہیں آسکا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہاکہ واقعی کسی بھی چھوٹے یا بڑے حادثے کے وقت صرف اس حادثے کی وجہ ہی معلوم نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کی طرح فورا ً متاثرین کوابتدائی طبی مدد بھی فراہم کرنی چاہئے پھر اسپتال پہنچا نا چاہئے ۔
آج وہ گھر پہنچی تو بڑی امی کچھ افسردہ نظر آئیں۔ وہ انکا کمرہ درست کرتے ہوئے جب انکی طرف دیکھتی تووہ سوچ میں ڈوبی نظر آتیں۔ بالآخر اس نے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے اور وہ جو اپنی والدہ کے کمرے کے دروازہ تک پہنچا تھا، اپنا نام سن کر رک گیااور سمجھ گیا کہ میری کہی بات اسے بتائیں گی اور وہ اس کا جواب جاننے کی جستجو میں وہیں ٹھہرگیا۔ انہوں نے اپنے پاس اسے بلایا اور ساری حقیقت بیان کردی کہ انکے بیٹے کو کیسے میرے فیصلہ کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ تمہارے بڑے ابا نے تم دونوں کا رشتہ طے کر دیا تھا اور ایک سال پہلے وہ اس دنیا سے چلے نہ جاتے تو ان کے فیصلے کے خلاف کو ئی ایک لفط بھی نہیں کہہ سکتا تھا لیکن وہ میرے پاس آیا اور اپنی پھوپھی کے گھراپنا رشتہ لے جانے کی فرمائش کی۔ وہ انکے ہاتھ چومتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ بھلا ایک کزن سے شادی ہو یا دوسری سے، اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے بھی میں تو آپ کی بیٹی ہوں۔ میرے لئے تو آپ ہی سب کچھ ہیں ۔
وہ اتنے آرام سے بات کر رہی تھی کہ جیسے اسے کوئی دکھ اپنا رشتہ ٹوٹنے کاہوا ہی نہ ہو۔ شاید وہ ہوا کا رخ بہت دنوں سے جان گئی تھی اس لئے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اسے وہ کچھ یاد آجانے پر بتانے لگیں ۔وہ اپنی آدھی تنخواہ کی بابت حساب پوچھ رہا تھا کہ کچھ آپ نے جمع کیا ہوگا شادی کی تیاری کے لئے۔بھلا بتاﺅ اس کی آدھی تنخواہ میں تو اسکے کمرے میں رات بھر چلنے والے اے سی اور اس اسکے فون کا بل بھی ادا نہیں کیا جا سکتا۔یہ بل اتنا آجاتا ہے کہ سارا پیسہ اس میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ انکی پنشن اور تمہاری تنخواہ سے گھر چلتا ہے اور تم اسکے دونوں بھائیوں کی ہاسٹل کی فیس بھی بھیجتی ہو جو اس کی ذمہ داری ہے لیکن وہ تو ہر طرف سے آنکھ بند کئے بس اپنی دنیا میں گم ہے۔ وہ حیرت سے سوچ رہا تھاکہ اسے واقعی اپنے دونوں بھائیوں کی فیس کا یاد نہیں رہا تھا۔ یہی خیال آیا کہ والد صاحب انکا انتظام کر گئے ہونگے جب ہی وہاں سے کسی قسم کی فیس کی بابت کوئی کاغذ آج تک وہاں سے نہیں آیا۔ آج وہ گھر پر ہلچل دیکھ کر سمجھ رہی تھی کہ پھوپھی کے سسرال سے لوگ آئے ہونگے لیکن بڑی امی بھی چلی جائیں گی، معلوم نہیں تھا۔ محلے والے بھی جمع ہوگئے۔ وہ نماز میں سجدے میں گئیں اورانکا سر سجدے ہی میں تھا کہ وہ انتقال کر گئیں۔ وہ اپنی بڑی امی کو اسی طرح جانتی تھی جیسا کہ کوئی اپنی والدہ کوجانتا ہے ۔ انہوں نے والدہ کے انتقال کے بعد اسے پالا ۔ بالکل بیٹی ہی سمجھا اور اب اس نے سوچ لیا کہ جب انہوں نے مجھے والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تو میں بھی اپنے چھوٹے دونوں چچا زاد بھائیوں کی سگی بہن کی طرح خیال رکھوں گی۔
اس نے بیرون ملک داخلہ لیا تھا تاہم اس نے پہلا سمسٹر فریز کروایا تھا ۔اب وہ وہاں اپنی تعلیم شروع کرنا چاہتی تھی ۔تیاری مکمل ہو گئی تھی۔ اسکی کولیگز ایئر پورٹ ساتھ جانے والی تھیں کہ اچانک وہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ آن پہنچا ۔گھر کے سناٹے کو محسوس کر کے بڑی امی کی بابت معلوم کیا تو خبر ملی کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔ اس نے اظہار افسوس کیااور جب پھوپھی نے اس کی آمد کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کو لے کر آنا چاہتا ہے۔ وہ حیرت سے اس گاﺅں میں پلے بڑھے طویل القامت نوجوان کو دیکھ رہی تھیں کہ جس کے انداز سے ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ معمولی زمیندار نہیں۔ اچانک ہی خیال گزرا کہ انکی بیٹی کو تو گھر پر اپنے ہی جیسا رشتہ ملا اور جو عام سی شکل و صورت کی ہے اس کے لئے ایسے شہزادے جیسی آن بان والا سوالی بن کر آیا ہے ۔
جیسے وہ آتی نظر آئی، یہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کے ہوم اکنامکس کالج کی نمائش دیکھی ہے ۔ آپ لوگوں نے کئی نئے ڈیزائنز کے آرام دہ صوفہ سیٹ متعارف کرائے ہیں جو زیادہ وزنی نہیں اور کافی آرام دہ ہیں۔ کیا آپ یہ سب اکیلے کرلیتی ہیں؟ اس نے بتایاکہ ہم گروپ میں یہ ساری چیزیںتیار کرتے ہیں اور ہر سال ہی ہینڈی کرافٹس کی نمائش ہوتی ہے۔ وہ جو اسکے شاپنگ بیگز کو دیکھ کر سوچتا تھا کہ کیا شاپنگ ہوتی ہے، آج معلوم ہوا کہ یہ سب اسکی جاب کا ہی ایک حصہ تھا، جہاں وہ لیکچرر تھی۔
فلائٹ میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا تھا اور اس کی پھوپھی سوچ رہی تھیں کہ اب جبکہ پرستان کا شہزادہ آگیا ہے تو وہ جانے کا ارادہ ملتوی کردے گی لیکن یہاں تو دوسرا ہی سلسلہ تھا۔ جیسے ہی اس نے اپنی آمد کی وجہ اسے بتائی وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔ چند لمحے گزرجانے کے بعد اس نے ہنستے ہوئے کہاکہ اگر آپ میرا معائنہ مکمل کرچکی ہوں اور آپ کی اجازت ہو تو کل میں اپنی والدہ کو آپ کے گھر لے آﺅں؟ اس کے اس شوخ جملے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔پھوپھی کے ساتھ اس کا تایا زاد بھی منتظر تھا کہ اس زمیندارکی شاندار شخصیت کو بھلاکون نظر انداز کر سکتا ہے۔ وہ سادہ نگاہ اورگمبھیر لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولی،کل میں نے آپکی تقریر سنی،اچھا بولتے ہیںآپ ۔ ہم نے آپ کی زمینوں کا اناج کھالیا، آپ کی نہروں کا پانی پی لیا، واقعی کتنا ظلم کیا ہم نے آپ لوگوں پر۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن آپ نے صرف اناج اور پانی کاطعنہ دیا،ہم نے سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی اور بادصبا سے فائدہ حاصل کیا اسے تو آپ بھول ہی گئے۔ اچھا ہوا یہاں سے آب ودانہ اٹھ گیا۔ بیرون ملک کوئی اناج کا طعنہ نہیں دیتا ۔اپنا کماﺅ اور خرید لو۔ اچھا ہے ایسی جگہ ہی رہنا چاہئے۔ اناج کا طعنہ ایسا ہے کہ مرجانے کوجی چاہتا ہے۔
٭٭جاننا چاہئے کہ تعصب انسان کے اعمال کو خاکسترکردیتا ہے ۔