نتنیاہو کے دورہ مسقط کے بعد کیا ہوگا؟
عبدالرحمان الراشد۔۔الشرق الاوسط
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کے دورہ مسقط پر عرب دنیا کا عوامی اور ابلاغی رد عمل کافی ٹھنڈا رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں علاقہ کتنا بدل چکا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسرائیل سیاسی ملاقاتوں سے آگے بڑھ کر عرب ممالک کے ساتھ کھیلوں اور اقتصادی سودوں کیلئے بھی کوشاں ہوگیا ہے۔ کئی عرب ممالک میں یہ مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممنوعہ تعلق کو الوداع کہنے کی علامت ہے؟
میرا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کے ساتھ مخصوص قسم کے رویے نے فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا اور اسرائیلیوں کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخالفت عرب کلچر کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ یہ مخالفت گہری بھی ہے اور زندہ بھی ۔ نئی بات یہ ہے کہ اب اسے بنیاد بناکر عرب حکومتوں کی پالیسیاں نہیں بن رہیں۔ پہلے اس حوالے سے الزامات کی چاند ماری شروع ہوجاتی تھی۔ سلطنت عمان نے نتنیاہوکے دورے کی بابت صاف گوئی سے کام لیکر اچھا کیا۔ یہ علاقائی تنازعات کا فریق نہیں ۔ کسی بھی حکومت نے سلطنت عمان کیخلاف میڈیا کی توپوں کے دہانے نہیں لگائے۔
ابھی تک اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ مسقط کے موقع پر پس دیوار زیر بحث آنے والے امور کا کسی کو علم نہیں ہوا۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان عمان ثالث کا کردار نہیں ادا کررہا،ناقابل فہم ہے۔ مصریہ کام انجام دے چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نتنیاہوکے دورہ مسقط کا ایران اسرائیل کے معاملے سے کوئی تعلق ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو کیونکہ فریقین سلطنت عمان کو اعتبار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایران 2محاذوں پر بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ شام میں شکست کھاچکا ہے۔ امریکی پابندیاں بحال ہوچکی ہیں۔ ایک ہفتے بعد پٹرول کی برآمد اور ڈالر کے لین دین سے محروم کردیا جائیگا۔ اہم پہلو یہ ہے کہ شامی خانہ جنگی اور انتہائی اہم علاقو ں میں ایران اور اس کی ملیشیاؤں کے داخلے کے باعث خطے میں اسرائیل کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل نے شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو ختم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس نے ایسے کام کئے جو ایران کی مداخلت کے مخالف عر ب ممالک نہیں کرسکے۔ اسرائیل کل تک مسموم پھل مانا جاتا تھا لیکن اب و ہ علاقائی امن کیلئے بیحد اہم ہوچکا ہے۔
شام کی جنگ نے توازن تبدیل کردیا۔ اس نے اسرائیل کو فریق بنا دیا۔ ترکی اور روس بھی شامی بحران کے فریق بن گئے۔ ایران کی موثر مداخلت نے ہی اسرائیل کو شام میں بنیادی کھلاڑی کا کردار دیا۔ اسے اس کا موقع اس وقت خاص طور پر ملا جب امریکہ اور ترکی نے شام میں ایرانی تسلط کو روکنے کے سلسلے میں لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیل نے یہ دیکھ کر کہ ایران انارکی پھیلانے والی ملیشیاؤں کے بل پر اپنی شہنشاہیت قائم کررہا ہے تو اس نے ایران کو لگام لگانے کیلئے مجبوراً متعدد اقدامات کئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایران ثالثوں کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت بڑھا رہا ہے؟ یا خود اسرائیل ایرانی حکمرانوں کو تسلی بخش پیغامات دینے میں پہل کررہے ہیں؟ ہو نہ ہو اسرائیل ایرانی قائدین کو یہ تاثر دے رہا ہوکہ وہ امریکی فیصلے پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ امریکہ کو ایران کے بائیکاٹ اور اقتصادی طور پر اسے تباہ کرنے کے فیصلے سے روک سکتا ہے۔خطے میں یہ اہم تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ اسرائیلی قائدین کی سرگرمیاں مسقط تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ شام اور یمن وغیرہ میں لڑائی جھگڑوں کی بنیاد پر خطے کی سیاسی تقسیم کی شروعات کا باعث بنیں گی۔