Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں اجارہ داری کا مسئلہ کیسے حل ہو؟

محمد حطحوط ۔ مکہ
امریکی شہر سان ڈیاگو کے باشندوں کو ایک مسئلے نے بے گھر کردیا۔ مکانات کے کرائے برداشت سے باہر ہوگئے۔ تفصیلات دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ غیر منقولہ جائدادوں کے اجارہ دارو ںنے پرائز فکسنگ کا چکر چلا کر شہر کے تمام مکانات کے کرایوں کو کنٹرول کرلیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک اسے جرم قرار دیئے ہوئے ہیں۔ اجارہ داروں نے آپس میں مل جل کر مکانات کے یکساں کرائے مقرر کردیئے۔ مذکورہ شہر نے اس کا ایسا حل دیا جسے دنیا کے200سے زیادہ شہرو ں میں نافذ کیا گیا۔ اسکے بموجب مالک مکان کو سالانہ 2فیصد کرائے میں اضافے کا حق دیا گیا۔ مثال کے طور پر اگر کرایہ دار نے سالانہ20ہزار ریال کرائے پر مکان حاصل کیا ہو تو ایسی صور ت میں اسکا مالک آئندہ سال 200ریال سے زیادہ کا اضافہ نہیں کرسکتا۔ اسے پوری دنیا میں پرائز سیلنگ کا نام دیا گیا۔ ماہرین اقتصادیات نے اس پر مثبت و منفی آرا پیش کیں۔ زیادہ تر نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
تاجروں کی استحصال پسندی صارفین کےلئے خوفناک مسائل پیدا کردیتی ہے۔ استحصال پسندی مختلف شکل و صورت میں سامنے آتی ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ بیشتر سرمایہ کار اچھے لوگ ہیں، محب وطن ہیں لیکن محض محبت ناکافی ہے۔ استحصال پسند تاجروںکو لگام لگانے کیلئے قانون سازی بھی ضروری ہے۔ 
سعودی عرب میں ایک ادارہ نرخوں کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے جسے ”منافسہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ تاجرو ںکے درمیان مسابقت کے ماحول کو کنٹرول کرنے والا ادارہ ہے۔ اس ادارے کی ہر سعودی اور مقیم غیر ملکی کی زندگی میں ایک اہمیت ہے تاہم یہ ادارہ کیا کررہا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔
امریکہ میں 2سرکاری ادارے اجارہ داری کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم کئے گئے ہیں۔ ایک ایف ٹی سی اور دوسرا ادارہ امریکی وزارت انصاف کا ہے۔
چند برس قبل” آفس ڈپو اور اسٹیبل“ کمپنیوں نے ایک دوسرے میں ضم ہوکر بڑی کمپنی قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ دونوں کمپنیاں آفس فرنیچر میں اپنی شہرت رکھتی ہیں۔ وزارت انصاف نے دونوں کمپنیوں کو ایک کمپنی میں تبدیل ہونے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ایسا کرنے سے مارکیٹ پر کمپنی کی اجارہ داری قائم ہوجائیگی او رمسابقت کا ماحول ختم ہوجائیگا۔ 
فی الوقت گوگل اور امازون کمپنیاں بھی خود کو ایک دوسرے میں ضم کرکے نئی بڑی کمپنی کے قیام کا چکر چلا رہی ہیں۔ انکے خلاف بھی وہی کارروائی ہوگی جو ” آفس ڈپو اور اسٹیبل“ کے حوالے سے کی گئی۔ میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی کالم انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ اتنا کہہ کر اپنی بات ختم کرونگا کہ ہمارے یہاں نجی اداروں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں سے آہنی پنجے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اسکے بغیر مسابقت کا ماحول قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: